مصنف: ڈاکٹر محمد کلیم
ڈاکہ زنی، نقب زنی، شمشیر زنی کے بعد حاضر ہے خاکہ زنی۔ ان تمام مرکب الفاظ میں زنی کا لفظ مشترک ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ تمام کے معنی بھی منفی ہیں۔ جب سے ہم نے خاکہ زنی پڑھی ہے نجانے کیوں یہ ہمیں نقب زنی کی چھوٹی بہن لگی ہے۔ جیسے نقب زنی میں انسان کسی کے گھر میں نقب لگاتا ہے اور اس کی دو چار قیمتی اشیاء اٹھا کر رفو چکر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح خاکہ زنی میں بھی انسان کسی کی بھی شخصیت میں غوطہ زن ہوتا ہے اور اس کی شخصیت کے دو چار گوہر تلاش کر کے لوگوں کے سامنے لے آتا ہے۔
پچھلے کچھ عرصہ سے ہمیں خاکے لکھنے کا شوق چرایا ہے اس لیے چند خاکے لکھ مارے ہیں بعد میں خیال آیا خاکے تو ہم لکھ رہے ہیں لیکن خاکے لکھنے کی الف ب بھی ہم کو معلوم نہیں، ویسے تو آپس کی بات ہم سب ہی ایسے تمام کام کرتے ہیں جن کی الف ب بھی ہم کو معلوم نہیں ہوتی لیکن خیر ہم اتنے بھی نا بلند نہ تھے۔ ہم نے دہلی کا آخری یادگار مشاعرہ، چند ہم عصر، فرشتے، گنجے فرشتے اور اوکھے اولڑے پڑھ رکھی تھیں لیکن یقین کریں پھر بھی خاکہ کیا ہے ہمیں خاک بھی معلوم نہ تھا۔ اشفاق احمد ورک صاحب جو کہ ہمارے فیس بک پر دوست ہیں، سنا ہے ان کی خاکوں کی کتاب ہے لیکن ورک جاٹ ہوتے ہیں ان سے قلمی دوستی اور خاکوں کی نازگی کا ہم کو یقین ذرا نہ تھا ۔ پھر ایک محفل میں ہم نے اپنے گناہ گار کانوں سے ان کا اپنا لکھا ہوا خاکہ ”کان“ سنا تو ہمارے کانوں نے ”کان“ کی اس قدر تعریف اور گہرا مشاہدہ دیکھ کر ہمیں تنبیہ کی ”بھائی صاحب“ آپ نے کبھی ہم پر اس طرح غور کیا ہے۔ ہم نے جواب دیا ”نہیں“ تو بولے اس کے لکھے ہوئے خاکے پڑھو تمہیں بھی خاکے لکھنے آ جائیں گے جو کانوں کو کھڑے کر سکتا ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ہم نے کہا تم بیٹھے کب تھے جو تمہیں کھڑے کیا گیا ہے تو کان فرمانے لگے یار تم کبھی اچھے خاکے نہین لکھ سکتے۔ ہم چپ رہے۔ پچھلے دنوں سنگ میل جانے کا اتفاق ہوا تو ورک صاحب کی کتاب “خاکہ زنی” خرید لائے اور سوچا یہ کام بھی کر کے دیکھتے ہیں شاید کچھ افاقہ ہو۔
خاکہ زنی پڑھنا شروع کی تو ختم کر کے دم لیا۔ کتاب نے کہا بیٹا اب تو پھنس گیا ہے۔ اب نہیں جانے دوں گی۔ کتاب میں سولہ خاکے، چار خاکچے فکریالوجی اور خاکہ کیا، کیوں کیسے کے عنوان سے تین مضامین شامل ہیں۔ ویسے تو آپس کی بات ہے ہر خاکہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہر خاکے پر دم نکلے۔
لیکن آپس کی بات ہے مجھے مشہور شخصیات سے زیادہ ان کے ذاتی خاکے اچھے لگے۔ جیسے کچھوا مزاج میں، اماں بعد، ایک بیوی ہے چار بچے ہیں، باقاعدِ اعظم اور مخبوط الحواس شامل ہیں۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
بقول یوسفی صاحب،مصنف اور قاری کے درمیان ایک کتاب کا فاصلہ ہونا چاہیے۔ جب سے خاکہ زنی پڑھی ہے تو یوسفی صاحب کے اس قول پر صد فی صد یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کہ کتاب ہی ہے جو کسی شخص کی شخصیت سے روشناس کراتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر لگتا ہے کہ اشفاق احمد ورک نے ایک کٹھن زندگی گزاری ہے اور اسی مشکل میں سے مزاح کو تراش کر سجا سنوار کر ہمارے سامنے لے آئے ہیں جیسے ایک کنول کا پھول۔ ایک دانش کا قول ہے کہ ہر قہقہے کے پیچھے بے شمار غم پنہاں ہوتے ہیں۔ یہ کتاب پڑھ کر یہ قول سچا ثابت ہوا ہے۔
اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ ہر خاکہ کوئی نہ کوئی کلیدی شے کو سامنے لاتا ہے اور اس کو مرکزی خیال بنا کر اس کے گرد پورا خاکہ بنا جاتا ہے جیسے ”معاملہ فہم“ عطا الحق قاسمی صاحب کا خاکہ ہے اور نام سے ظاہر ہے کہ ان کی معاملہ فہمی کی خوبی کو اجاگر کرتا ہے اور ان کی ذات کے بے شمار پہلو بیان کرتا جاتا ہے۔ اس طرح بڑے بھائی حسین شیرازی کا خاکہ ہے جو ان کے بڑے پن کو ظاہر کرتا ہے۔ اشفاق احمد ورک کیونکہ اردو کے استاد بھی ہیں اس لیے اپنے خاکوں میں صنائع بدائع بھی پڑھاتے نظر آتے ہیں اور اردو کی ساری صنعتیں اس میں لگی ہوئی ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
پھر ایک دن اس نے بیٹھے بٹھائے ہمیں حیران، کلاس کی نوٹس زدہ مخلوق کو پریشان اور اس محترمہ کے اطمینان کے لیے علم بدیع کی ذیل میں صنعت تلمیح، صنعت لف و نشر، صنعت مراۃ ال نظیر، صنعت حرفت، صنعت شکوک، صنعت مدقوق، صنعت نثر، صنعت حسنِ تعطیل، صنعت تشویش، صنعت تردید، صنعت تحریص اور صنعت تقدیس کبھی تلاش اور ایجاد کر ڈالی۔
تمام خاکوں میں شخصیت کے ساتھ پیار اور الفت کا رشتہ قائم رکھتے ہوئے ورک صاحب نے اپنے جٹ ہونے کا ثبوت دیا ہے اور ان کے دیگر پہلو پر ہلکی ہلکی روشنی ڈالی ہے اور آگے بڑھتے گئے ہیں۔ ہمارا اپنا اور ذاتی خیال یہ ہے خاکہ زنی سب کو پڑھنی چاہیے اور اس کے بعد سب سے پہلا خاکہ اپنا لکھنا چاہئے۔ ہم نے اپنا خاکہ لکھنا شروع کیا ہے اور ہمیں اپنی اصلیت معلوم ہونا شروع ہو گئی ہے آپ بھی کوشش کر کے دیکھ لیں۔