احمد فراز کی شاعری جن دو بنیادی جذبوں، رویوں اور تیوروں سے مل کرتیار ہوتی ہے وہ احتجاج، مزاحمت اور رومان ہیں۔ ان کی شاعری سے ایک رومانی، ایک نوکلاسیکی، ایک جدید اور ایک باغی شاعر کی تصویر بنتی ہے۔ انہوں نے عشق، محبت اور محبوب سے جڑے ہوئے ایسے باریک احساسات اور جذبوں کو شاعری کی زبان دی ہے جو ان سے پہلے تک ان چھوے تھے۔
کس طرف کو چلتی ہے اب ہوا، نہیں معلوم
ہاتھ اُٹھا لیے سب نے اور دعا نہیں معلوم
موسموں کے چہروں سے زردیاں نہیں جاتیں
پھول کیوں نہیں لگتے خوشنما، نہیں معلوم
رہبروں کے تیور بھی رہزنوں سے لگتے ہیں
کب کہاں پہ لُٹ جائے قافلہ، نہیں معلوم
آج سب کو دعوی ہے اپنی اپنی چاہت کا
کون کس سے ہوتا ہے کل جدا، نہیں معلوم
منزلوں کی تبدیلی بس نظر میں رہتی ہے
ہم بھی ہوتے جاتے ہیں کیا سے کیا، نہیں معلوم
ہم فرازشعروں سے ،دل کے زخم بھرتے ہیں
کیا کریں مسیحا کو جب دوا نہیں معلوم