Premium Content

کتاب: نئے نقاد کے نام خطوط

Print Friendly, PDF & Email

مصنف: ناصر عباس نیر

تبصرہ: ڈاکٹر محمد نصر اللہ اچھی کتابیں ہوں یا دوست، دونوں سے تعلق میں ایک بے ساختہ پن، کشش اور اپنائیت ہوتی ہے۔ یہ بے ساختگی، کشش، داخلی تعلق اور اپنائیت پیدا ہونے کا عمل محض دنوں، مہینوں، چند سالوں پہ محیط نہیں ہوتا۔ کوئی ادیب ہو یا بھلا انسان اسے اپنی اور دوسروں کی نظر میں بھانے کے لیے وقت تو لگتا ہی ہے

یہ جو مجھ پر کسی اپنے کا گماں ہوتا ہے
مجھ کو ایسا نظر آنے میں بڑی دیر لگی عباس تابش

اس کے راستے میں کئی ایسے موڑ بھی آتے ہیں جو اس کے ضبط کو آخری حدوں تک آزماتے ہیں؛ مگر وہ ہر مشکل موڑ کا، اپنی ذہنی و اعصابی قوت، جرات اور وقار سے سامنا کرتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کی منزل کوئی اور ہے۔ ”دہشت گرد سے گوتم بدھ کی ملاقات“(کتاب) میں لکھا ہے کہ ”نرم رویہ سب سے مشکل رویہ ہوتا ہے“۔”

صاف ذہن سے ”نئے نقاد کے نام خطوط“ کا مطالعہ کیا جائے تو بے ساختہ اس بات کی طرف دھیان جاتا ہے کہ شائستگی سے بات کرنے، جینے یا معیاری تنقید لکھنے کے لیے انسانی دل اور دماغ کا طاہر و طیب ہونا کس حد ناگزیر ہے۔

اس کتاب میں شامل تمام خطوط(33) میں کئی اہم موضوعات زیر بحث آئے ہیں۔ تنقید پر نت نئے اعتراضات( یہ کہ تنقید ادب سے ملنے والی مسرت کی قاتل ہے) کی بابت نئے نقاد کے خدشات اور ادب اور آرٹ کی روح سے متعلق اہم  سوالات کے جوابات دلیل اور تہذیب کے ساتھ تو دیے گئے ہیں؛ مگر جو آواز، جس انداز سے قارئین سے مخاطب ہوتی ہے، وہ آواز سنی جانے، سراہے جانے کے قابل ہے کہ ایسی مخلصانہ علم دوست آوازیں ہماری دنیا میں کم کم ہی پیدا ہو پاتی ہیں۔ ایسی دوست کتابیں شاذو نادر ہی مل پاتی ہیں جو انسان کی خارجی ہی نہیں، داخلی دنیا کو بھی سمجھتی، محسوس کرتی ہوں، جن کی ہستی کے اندر واقعی میں انسان کی تنہائی سے کلام کرنے، اس کے گہرے پوشیدہ زخموں کا مداوا کرنے کی خوبی پیدا ہو گئی ہو۔ نیر صاحب ایسی رفیق کتابوں کی طرف چار طرح سے ہماری توجہ دلاتے ہیں۔ ایک خود ایسی کتاب لکھ کر، دوسرا حواشی میں ایسی کتابوں کا ذکر کر کے، تیسرا اپنی پسندیدہ کتابوں سے من پسند اقتباسات میں قارئین کو شامل کرکے، چوتھا کتابیں پڑھنے سے متعلق یہ اہم سوالات اٹھاکر:۔

وہ کون سی کتابیں ہیں جو تمھاری تنہائی کی رفیق ہیں اور جو تمھاری خود کلامی اور کسی ایک گہرے، بے تکلف دوست(جن کی تعداد دو تین سے شاید ہی بڑھے) سے کبھی کبھار کی ہم کلامی کا حصہ بنتی ہیں؟ اور وہ کتابیں کون سی ہیں جنھیں تم اس لیے پڑھتے ہو کہ رسمی، پر تکلف(چھوٹے بڑے) اجتماعات میں ان پر اپنی رائے دے سکو؟ تم دیکھو گے کہ تم نے اب تک دو ہی قسم کی کتابیں پڑھی ہیں۔ ایک اپنے لیے، دوسری زمانے کے لیے۔ جب تم پر یہ حقیقت منکشف ہو گی کہ تم نے اپنے لیے کم اور زمانے کے لیے زیادہ پڑھی ہیں تو کچھ اور سچائیاں بھی روشن ہوں گی۔ یاد رکھو، سچ تنہا ہوتا ہے نہ دوسروں سے الگ تھلگ۔ تم پر کھلے گا کہ تم نے تھوڑی زندگی اپنے لیے بسر کی اور زندگی کا بڑا حصہ دوسروں کی نذر کر دیا ہے۔

تنقید، ادب اور آرٹ کی حقیقی روح کو جاننے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے اس کتاب میں کئی قیمتی باتیں آگئی ہیں۔ اس کتاب میں حقیقی و غیر حقیقی سوالات میں فرق کی نشان دہی کرکے حقیقی سوالوں کے جواب دینے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ تاثر اور تنقید میں فرق واضح کیا گیا ہے۔ گروہ کی سیاست کی مخالفت کی کئی ہے۔ تنقید سے متعلق اس اہم سوال کا تسلی بخش جواب دیا گیا ہے کہ تنقید جب خود ادب سے اصول اخذ کرتی ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے اور جب وہ دوسرے علوم سے مدد لیتی ہے تو اس کا حاصل کیا ہوتا ہے؟ خدا، مصنف اور تاریخ کی موت کی وضاحت، فن پارے سے متعلق اس حقیقت کا اظہار کہ فن پارہ خواہ کتنا ہی خود پر انحصار کرے، وہ باہر سے بیگانہ نہیں رہ سکتا۔ فن کیا ہے؟ فن کیا نہیں ہے؟ فن کی تھاہ کیسے پائی جا سکتی ہے؟ ان سوالات پر توجہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ فن پارے کی خوبی، اس کا اسرار، اس کا بھید ہے اور ایک عام قاری کے برعکس ایک نقاد کو اس اسرار کو گرفت میں لینے کے لیے علم، فہم اور ذوق کی ضرورت ہوتی ہے۔ نقاد ایک با ضابطہ طریق کار کے تحت فن پارے کو دیکھتا اور دلیل و شائستگی سے اس سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے وہ دیگر علوم اور متن سے متعلق تنقیدی نظریات کو بھی بغیر کسی تذبذب کے برتتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ مختلف علوم کا متن سے تعلق بیر کا نہیں، قرابت کا ہوتا ہے:”متن کا “لکھا جانا” دراصل ثقافت کا “پڑھا جانا“ ہے اور چوں کہ متن کی تصنیف ثقافت کی قرات کا ثمر ہے اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ہر نیا متن کسی دوسرے متن کو پڑھے جانے کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے اور حقیقی معنوں میں خود مکتفی نہیں ہوتا“۔”

بزرگ نقاد نئے نقاد کو ادبی تنقید کے بنیادی کاموں سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے اس نکتے کی طرف بالخصوص توجہ دلاتے ہیں کہ ادبی تنقید لکھنے کے لیے قول محال کو سمجھنا کس قدر ضروری ہے۔ وہ آسان، دلچسپ مثالوں سے قول محال کو سمجھاتے، غالب اور بورخیس کو پڑھنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ سچائی، مابعد سچائی کے زمانوں کے حقائق پر روشنی ڈال کر، وہ پھر یہی اہم سوال اٹھاتے ہیں کہ سچائی کیا ہے؟ سچائی کو پانا کتنا مشکل، اس کا بیان کتنا ناگزیر ہے۔ وہ نئے نقاد کو زبان کی طاقت کا احساس دلاتے ہوئے اور دوسروں کی ایجاد کردہ سچائیوں کو طشت از بام کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہماری سچائی کیا ہے؟ فن کی سچائی کیا ہے؟ اصل بہادری کیا ہے؟ ان سوالوں کا سامنا کرتے ہوئے وہ مزید گہرے فلسفیانہ سوالات کی طرف بڑھتے ہیں کہ داخلی اور خارجی وقت میں کیا فرق ہے؟ ایک اچھا فن پارہ تخلیق کرنے کے لیے داخلی وقت کو بروئے کار لانا کتنا ضروری ہے؟ کیسے کسی بڑے فن پارے کی تخلیق کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی؟

Shop online with Republic policy Think Tank: https://www.daraz.pk/shop/3lyw0kmd

آرٹ کے جذبات شخصی ہوتے ہیں یا غیر شخصی؟ کوئی ”خود“ کیسے تشکیل پاتا ہے؟ کوئی ”خود“ عمل تخلیق کے دوران “خود فراموشی“ کے عمل سے گزرتا ہے یا نہیں؟ ایک شخص کے ”خود“ اور ایک ”انسانی خود“ میں کیا فرق ہوتا ہے؟ نیا نقاد کیسے یہ جان پائے گا کہ تخلیق میں آنے والا”خود“ محض خود تھا یا ”انسانی خود“ تھا؟ اگر وہ محض”خود“ تھا تو بھی کیا وہ ”انسانی خود“ تھا یا نہیں؟ اگر وہ ”انسانی خود“ نہیں تھا تو اس کی تخلیق کو تخلیق کہا جا سکتا ہے؟

تنقید لکھنے کے لیے دل و دماغ کا ”صحت مند“ ہونا کتنا ضروری ہے؟ ان کو کیسے صحت مند رکھا جا سکتا ہے؟ ان کو صحت مند رکھنا کس حد تک ہمارے بس میں ہوتا ہے؟ ہم اپنے اختیار کا استعمال کر بھی لیں تو ہمیں اس دنیا میں انھیں صحت مند رکھنے کے لیے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ ان تمام حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس سوال کا امید بخش جواب دیا گیا ہے کہ دل و دماغ کس وقت اپنی بہترین صلاحیتوں کا اظہار کر سکتے ہیں؟

ناصر عباس نیر ادعائیت کے بجائے استفسار پسندی سے کام لیتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں۔ اپنے وسیع مطالعے، علمی بصیرت اور تجربے سے مدلل جواب دیتے ہیں۔ تخلیق کار نقادوں سے متعلق کہتے کیا ہیں اور در حقیقت “چاہتے“ کیا ہیں؟ کیا آدمی واقعی صرف اپنے لیے لکھتا ہے؟ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے لکھے پہ کوئی معتبر ”پاریکھ“ اپنی رائے کا اظہار کرے؟

ادب کی روح کیا ہے؟ کیفیت کیا ہے؟ معنی کیا ہے؟ کیا تخلیقی عمل کا تصور نئے پن، ایجاد پسندی اور انحراف کے بغیر بھی ممکن ہے؟ کیا تنقید واقعی ادب سے ملنے والی مسرت کی قاتل ہے؟ کیا مسرت صرف حسی ہوتی ہے یا ذہنی بھی؟ ذوق اور فہم میں کیا واقعی کوئی ابدی تنازعہ ہوتا ہے؟ مقبول عام ادب، عوامی ادب اور حقیقی ادب میں کیا فرق ہے؟ موجودہ صدی میں شاعری اور دیگر اصناف کی نسبت ناول کی مقبولیت کے اسباب کیا ہیں؟ ان تمام سوالات کے جوابات کا تعلق صرف نقادوں سے  نہیں، ہر ادب دوست کے ساتھ ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب ایک اہم علم کے جائز مقام، اس کی حفاظت کا ذمہ اٹھاتی،  تنقید کی حقیقی روح سے ہمیں روشناس کراتی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos