پاکستان میں حلقہ کی بنیاد پر رائج پارلیمانی نظام کی وجہ سے صرف حلقہ کی بنیاد پر کی گئی تقسیم اور حلقوں ہی کی بنیاد پر اس کے پس منظر کو پرکھا جا سکتا ہے کیونکہ ہر حلقہ دوسرے حلقے سے بہت سی وجوہات کی بناء پرمختلف ہے۔ ان وجوہات میں لوگوں کی علاقے اور اس علاقے (حلقے) میں مقبول سیاسی پارٹی کے سابقہ ادوار میں کارکردگی، جس میں پہلی بار میدان میں نمودار ہونیوالی پارٹی تحریک انصاف سرِ فہرست ہے۔
تحریک انصاف عمران خان اور عمران خان تحریک انصاف ہیں۔ لہذا دوسرے یا تیسرے درجے کی قیادت کا پارٹی چھوڑنا اہم نہیں ہے۔
تاہم مقبول سیاسی رہنماؤں کے پارٹی چھوڑنے سے فرق پڑے گا۔ پاکستان کے 266 حلقوں میں ابھی بھی 100 سے زائد حلقے سابقہ حکومت کے منتخب شدگان کے زیراثر ہیں۔ لہذا یہ دیکھنا ہو گا کہ جو سیاست دان تحریک انصاف چھوڑ رہا ہے وہ کن حلقہ جات سے ہے؟
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
اسد عمر اسلام آباد کے شہری حلقے سے انتخابات لڑتے ہیں اور یہ حلقہ سیاسی اثر رسوخ رکھنے والوں کے بجائے پارٹی امیدواران کو ووٹ کرتا ہے۔ لہذا اسد عمر کے پارٹی چھوڑنے سے فرق نہیں پڑیگا کیونکہ تحریک انصاف کسی کو بھی ٹکٹ دیکر الیکشن جیت سکتی ہے۔ تاہم اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے سابق رکن اسمبلی غلام سرور خان کے پارٹی چھوڑنے سے تحریک انصاف کو راولپنڈی کے دو حلقوں میں فرق پڑ سکتا ہے۔
یاد رہے کہ یہ انتخابات اس لیے بھی اہمیت کے حامل ہیں کہ تحریک انصاف کو پاپولر سپورٹ کو حلقہ جاتی سیاست میں تبدیل کر کے پارٹی نمائندوں کی جگہ انفرادی منتخب امیدواروں کو ہرانا ہو گا، وقت کی مناسبت سے بظاہر یہ ایک مشکل مرحلہ ہے، تاہم تحریک انصاف کی مقبولیت کی مجموعی لہر کو توڑ کر انفرادی ووٹ میں تبدیل کر کے ایک نئی جہت دیتے ہوئےایسا ممکن بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔