محمد زبیر
قیادت ایک صاف، رواں اور زندگی بخش ندی ہے، لیکن یہ ندی تب سوکھ جاتی ہے جب اس کا چشمہ غرور کے پتھروں سے بند کر دیا جائے اور اس کی تہہ میں غفلت کی تلچھٹ جم جائے۔ بڑے بڑے جہاز طوفان سے نہیں ڈوبتے، اکثر ایک چھوٹا سا سوراخ ان کو ڈبو دیتا ہے۔ رہنما بھی یوں ہی ڈوبتے ہیں جب ان کے سوراخِ غرور سے زعمِ باطل کا پانی وجود میں گھس کر ان کی معنوی ہلاکت کا باعث بنتا ہے۔ یہ عمل رفتہ رفتہ ہوتا ہے، کسی ایک دن اچانک نہیں، جیسے اندر سے دیمک لگتی ہے اور لکڑی باہر سے سلامت نظر آتی ہے۔
ماضی کی کامیابیاں ایک شیشے کے فریم میں رکھی ہوئی یادگاریں ہیں، خوبصورت، لیکن بے جان۔ جو رہنما ان پر ٹک کر موجودہ لڑائی لڑنے کی کوشش کرتے ہیں وہ گویا زنگ آلود تلوار سے نئی لڑائی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔
🔗 https://www.youtube.com/@TheRepublicPolicy
بصیرت کوئی وراثتی تاج نہیں؛ یہ مسلسل جاگنے اور خود کو پرکھنے اور چیلنج کرنے کا نام ہے۔ زوال کا موسم خاموشی سے آتا ہے۔ پس ناکامی شور سے نہیں آتی، یہ تو چپ چاپ رگوں میں سرایت کرتی ہے۔ دفتر کی خاموش راہداریوں میں، میٹنگ روم کی مصنوعی مسکراہٹوں میں، اور رپورٹوں کے خوبصورت مگر کھوکھلے گرافوں میں۔ دشمن کبھی باہر نہیں ہوتا؛ اکثر وہ ہماری اپنی آنکھوں میں چھپا ہوتا ہے۔
🔗 https://x.com/republicpolicy
سیکھنا چھوڑ دینا دراصل اپنے ذہن کی کھڑکیاں بند کر دینا ہے۔ باہر کی تازہ ہوا، نئے خیالات، اور بدلتے زمانے کی خوشبو پھر اندر نہیں آتی۔ یوں قیادت ایک بند کمرہ بن جاتی ہے، جہاں سانس تو لی جا سکتی ہے مگر زندگی نہیں جی جا سکتی۔
🔗 https://facebook.com/republicpolicy
جب رہنما یہ یقین کر لیں کہ ان کی بات حرفِ آخر ہے تو وہ دراصل اپنے ہی قفس میں قید ہو جاتے ہیں۔ کمرے میں سب لوگ ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، مگر دل میں نفی کے بھاری پتھر رکھتے ہیں۔ اختلاف کا حق چھن جائے تو سچائی بھی پردے کے پیچھے دم توڑ دیتی ہے۔
🔗 https://instagram.com/republicpolicy
ایک نازک مزاج رہنما اپنے اردگرد ایسے لوگوں کا ہجوم اکٹھا کر لیتا ہے جو مسئلے نہیں حل کرتے بلکہ اس کے مزاج کی خوشنودی کا انتظام کرتے ہیں۔ یہ خوشامد کا کنواں جتنا بھرپور دکھائی دیتا ہے، اتنا ہی کھوکھلا ہوتا ہے۔
🔗 https://www.tiktok.com/@republic_policy
قیادت کا اصل حسن یہ ہے کہ آپ لوگوں کو اپنے بغیر بھی فیصلہ کرنے کا حوصلہ دیں۔ مگر ہم اکثر اختیار دینے کے بہانے ہر چھوٹی بات پر قابو پانے کا جال بُن دیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں: “یہ تمہارا فیصلہ ہے” اور پھر دھاگہ کھینچ کر اپنی مرضی کے رنگ بھر دیتے ہیں۔ آخرکار ٹیم اپنا دماغ استعمال کرنا بند کر دیتی ہے، اور قیادت ایک تنہا پہاڑی چوٹی پر کھڑے شخص کا نام بن جاتی ہے۔ یوں چاروں طرف منظر خوبصورت تو ہوتا ہے، مگر کوئی ساتھ نہیں ہوتا۔
🔗 https://whatsapp.com/channel/0029VaYMzpX5Ui2WAdHrSg1G
زہریلا ماحول اعلان کے ساتھ نہیں آتا، یہ بے حسی کی دبیز چادر اوڑھ کر چپکے سے رینگتا ہے۔ اقربا پروری، مصلحت کی سیاست، اور طاقتور کی خوشنودی یہ سب آہستہ آہستہ ماحول کو اس قدر بوجھل کر دیتے ہیں کہ بہترین لوگ رخصت ہو جاتے ہیں۔
تنوع اور مساوات کے نعرے جب محض دیواروں پر لگے فریم رہ جائیں تو میٹنگ روم میں سب چپ رہتے ہیں، جیسے کسی نے ہوا میں سنسر لگا دیا ہو۔ جہاں خوف غالب ہو، وہاں تخلیق مر جاتی ہے۔
خیالات قیمتی ہیں، مگر عمل ان کا لباس ہے۔ بغیر لباس کے خیالات سردی میں ٹھٹھر کر مر جاتے ہیں۔ کچھ رہنما آسمان میں قلعے بناتے ہیں مگر زمین پر اینٹ نہیں رکھتے۔ کچھ ہر سمت بھاگتے ہیں اور اسے جدت کہتے ہیں۔ مگر حکمت عملی وہی ہے جو حقیقت کے فرش پر رو پزیر ہو سکے، خواب کے بادلوں میں اڑ نہ جائے۔
“نہیں” کہنا اکثر قیادت کا سب سے مضبوط فیصلہ ہوتا ہے۔ ہر آواز کا تعاقب کرنا، ہر سمت دوڑنا، دراصل اپنی توانائی کو زمین پر بکھیر دیتا ہے۔
جب رہنما محض آج جیتنے کے لیے کل کو گروی رکھ دیتے ہیں، تو وہ ایک دن خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ تربیت میں کٹوتی، معیارات میں نرمی، یا حفاظت کے اصولوں سے سمجھوتہ یہ سب قلیل مدتی فتح کی قیمت پر طویل مدتی ہار کا سودا ہیں۔
دنیا بدلتی رہتی ہے۔ بازار، قوانین، اقدار سب نئے چہرے بناتے ہیں۔ جو رہنما اشارے نہیں پڑھتے، وہ ایک دن اپنی ہی کشتی کو ساحل پر الٹا پاتے ہیں۔
قیادت کوئی تنہا گیت نہیں، یہ ایک سازوں کا ہم آہنگ قافلہ ہے۔ بورڈ، سرمایہ کار، صارفین، آپ کے جملہ وابستگان اور متعلقین سب اس دھن کا حصہ ہیں۔ ان کو نظر انداز کرنا ایسا ہے جیسے آرکسٹرا میں سب ساز بج رہے ہوں مگر ڈرمر کو خاموش کر دیا جائے۔ اس سے دھن ٹوٹ جاتی ہے۔