ایسا لگتا ہے کہ پنجاب کی نگراں حکومت نے مریم نواز کے حالیہ بیان کو مان لیا ہے ۔ جمعہ کو، مسلم لیگ (ن) کی رہنما نے وفاقی مخلوط حکومت سے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا عمل شروع کرنے کا مطالبہ کیا جسے انہوں نے ”غیر ملکی ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے والی عسکریت پسند تنظیم“ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کے ساتھ ”دہشت گرد کی طرح“ نمٹا جانا چاہیے۔
گزشتہ روز جب سابق وزیراعظم توشہ خانہ کیس کے سلسلے میں اسلام آباد کی عدالت میں پیشی کے لیے جارہے تھے تو لاہور میں ان کی زمان پارک رہائش گاہ پر پولیس کی کارروائی ہوئی۔ سامنے والے گیٹ کو توڑنے اور داخلی دروازے کے باہر کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے بھاری مشینری کو استعمال کیا گیا۔
یہ واضح ہو گیا کہ وفاقی حکومت بھی اسی طرز پر چل رہی ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے میڈیا کو بتایا کہ زمان پارک کے اندر سے ’’دہشت گردوں‘‘ کو پکڑ لیا گیا ہے اور دھماکہ خیز مواد، پٹرول بم اور بم بنانے کا مواد برآمد کر لیا گیا ہے۔
وزیر اعظم، جنہیں ان کی بھتیجی نے ایک دن پہلے یہ کہہ کر طعنہ دیا تھا کہ ”شہباز کی زیرقیادت حکومت پر سوالیہ نشان ہو گا اگر وہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے عمل کا آغاز نہیں کرتے ہیں“۔
پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں نےعمران خان کی حمایت میں اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس کے باہرزمان پارک لاہور کی طرح ایک اور احتجاج کیا۔
پولیس نے احتجاج کرنے والوں پر آنسو گیس کا استعمال کیا۔ جس کی وجہ سے عمران خان عدالت کے احاطے میں داخل نہیں ہو سکے اور ان پر فرد جرم ملتوی کرنی پڑی۔
اس ہفتے کے شروع میں عمران خان کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرنے کی پولیس کی ناکام کوشش کے دوران ہونے والے ہنگامہ خیز واقعات کے بعد، کچھ امید پیدا ہوئی کہ سیاسی درجہ حرارت میں کچھ کمی آ رہی ہے۔ سابق وزیراعظم نےشہباز شریف کی بات چیت کی پیشکش کا مثبت جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ملک کی خاطر کسی سے بھی بات کر سکتے ہیں۔
مزید برآں، ہائی کورٹ کی ہدایت پر، اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پنجاب پولیس کی ایک ٹیم عمران خان کی زمان پارک میں واقع رہائش گاہ کی تلاشی لے گی جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملوں کی تحقیقات کرے گی ۔
پی ٹی آئی کی قیادت اور صوبائی پولیس کے درمیان بھی تحقیقات میں تعاون کا معاہدہ ہوا۔ تو پھر پولیس کی جانب سے بھاری مشینری کے ساتھ کاروائی کرنے کی کیا ضرورت تھی اور کاروائی ایسے کیوں کی گئی جیسے کسی دہشت گردوں کے اڈے کو چاک کرنا ہو؟ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اور پولیس کے درمیان جو تعاون کا معاہدہ ہوا تھا وہ گورنمنٹ کی جانب سے ہوا میں اُڑا دیا گیا ہے۔
بے یقینی ایک بار پھر ہوا میں معلق ہے۔ ایک بڑے سیاسی رہنما جو حکومت کا ایک اہم حریف ہے کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنا، بالکل اسی طرح جیسےمریم نواز نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے غیرقانونی ہے اوراس سے پی ٹی آئی کے حامیوں میں شدید مایوسی اور غم وغصہ کی فضا پروان چڑھے گی۔