سابق وزیراعظم عمران خان نے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ لانگ مارچ کے اختتام پر خطاب کرتے ہوئے، عمران خان نے واضح طور پر قبل از وقت انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔
پاکستان میں کل 859 نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کے استعفوں اور سیاسی دستبرداری کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی 123، پنجاب اسمبلی کی 297 نشستیں، خیبرپختونخوا میں 115، سندھ اسمبلی کی 26 اور بلوچستان کی سات نشستیں یعنی کل 568 نشستیں خالی ہو جائیں گی ۔پی ٹی آئی کی قیادت کا خیال ہے کہ اتنے بڑے استعفوں سےحکومت چلانے کا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور پی ڈی ایم کی زیر قیادت وفاقی حکومت کے پاس قبل از وقت انتخابات کرانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ تحریک انصاف کے حامی عمران خان کے اعلان کو بہترین سیاسی چال قرار دے رہے ہیں۔
تاہم، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انتخابات2023 میں مقررہ تاریخ پر ہی ہوں گے اور وہ عمران خان کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ پھر پی ڈی ایم کے دیگر راہنما بھی کہہ رہے ہیں کہ انتخابات مقررہ وقت پرہی ہوں گے۔
اب سب سےاہم سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے استعفے حکومت کو نئے انتخابات کروانے پر مجبور کر سکیں گے؟ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ استعفے صرف دو صوبائی اسمبلیوں پنجاب اورخیبر پختوانخوہ کو متاثر کریں گے۔ دیگر صوبوں اور وفاقی حکومت میں پی ڈی ایم پہلے ہی مضبوط پوزیشن میں ہے اور ان استعفوں کا وہاں کی حکومتوں پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ لہذا، پی ڈی ایم ان استعفوں کے اعلان سے پریشان نہیں ہوگی کیونکہ وہ پہلے ہی وفاقی حکومت میں تحریک انصاف کے استعفوں کے باوجود اقتدار سنبھالے ہوئے ہے۔ تاہم یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بیوروکریسی کے مرکزی نظام کی وجہ سے پی ڈی ایم دو نگران حکومتوں کے ساتھ نظام مملکت کو آسانی سے چلا سکتے ہیں۔ چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس عام طور پر صوبائی حکومت کے امور چلاتے ہیں اور وزیر اعلیٰ اور کابینہ ہمیشہ بیوروکریسی اور پولیس کے بل پر کام کرتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ دونوں افسران وفاقی ملازمین ہیں اور وفاقی حکومت ان افسران کے ذریعے صوبائی حکومت کو قابو میں رکھتی ہے۔ پھر، عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف اپنا آخری پتہ کھیلا ہے اور وہ کسی صورت بھی پی ڈی ایم کی حکومت کو اپنی مرضی سے کام نہیں کرنے دیں گے۔
تاہم، سیاسی طور پر اسمبلیوں سے استعفے کبھی بھی کامیاب سیاسی چال نہیں رہی ہے کیونکہ سیاسی خلاء سیاسی موت ہے۔ اب، یہ سب پی ڈی ایم پر منحصر ہے کہ وہ حتمی فیصلہ کیا کرتی ہے۔ پاکستانی جمہوریت میں جہاں اخلاقیات اور قانون ثانوی حیثیت رکھتے ہیں وہاں اقتدار اولین ترجیح ہے اور تمام سیاسی چالیں اقتدار کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ پھر، قبل از وقت انتخابات کروانا پی ڈی ایم کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔ استعفوں کا تعلق صرف دو صوبائی اسمبلیوں سے ہے۔
پاکستان میں حکمرانی کی ایک عجیب و غریب تاریخ ہے۔ فوجی حکومتوں نے حکمرانی کا سارا نظام سیاست دانوں کی شمولیت کے بغیر ہی چلایا ہے۔ اس طرح پی ڈی ایم بھی مؤثر طریقے سے دو صوبائی حکومتوں کے معاملات کو گورنر یا چیف سیکرٹری کے دفاتر کے ذریعے چلا سکتی ہے۔ پاکستان میں نوآبادیاتی طرز حکمرانی ہے جو مرکزی اور مطلق العنان ہے۔ پھر، پاکستان میں مستقل حکمرانی ملٹری و سول بیوروکریسی کی ہی ہے۔
صوبائی گورننس پر تمام تر کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ وفاقی حکومت چیف سیکرٹری اور آئی جی تعینات کر کے صوبے کو کنٹرول کر سکتی ہے۔ یہ دلیل محض مبالغہ نہیں ہے کہ صرف آٹھ وفاقی افسران صوبوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت چار چیف سیکرٹریز اور چار انسپکٹر جنرل آف پولیس تعینات کرے گی اور یوں تمام صوبوں کو کنٹرول کر لے گی۔یہ نوآبادیاتی طرز حکمرانی کا نمونہ ہے جس میں سیاسی نمائندگی کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ صوبوں کی سیاسی حکمرانی کا متبادل بھی ہے۔ البتہ 1915 کا نوآبادیاتی طرز نظام غیر آئینی ہے، لیکن مطلق العنان قوتیں اسے مرکز سے ہی چلانے پر بضد ہیں اور سیاستدان بھی کلونیل نظام حکومت پر اعتراض نہیں کرتے ہیں۔
اس لیے صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے فیصلے کا مرکزی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جو کہ وفاقی چیف سیکریٹری اور آئی جی کے ذریعے صوبوں کو مؤثر طریقے سے چلا سکتی ہے۔ پھر، گورنر کا آئینی دفتر بھی وفاقی حکومت کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے موجود ہے۔پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے ایک بار واضح طور پر کہا تھا کہ اپوزیشن کو سیاسی خلا فراہم کرنا ایک سیاسی جماعت کی سنگین غلطی ہے۔ جب تحریک انصاف احتجاج اور دھرنے نہیں دے رہی تو اسمبلیوں سے استعفے دینا سیاسی غلطی ہے۔
عمران خان اور تحریک انصاف مل کر ملک کے انتظامی نظام کو صرف حکومت میں ہی رہ کر پارہ پارہ کر سکتے ہیں۔ اگر صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے تعاون نہ کرے تو نظام حکومت چلانا انتہائی مشکل کام ہو جاتا ہے۔ مگر تحریک انصاف نے صوبائی حکومتوں کے اختیارات کی بجائے میدان سے باہر رہ کر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ موجودہ نظام میں صوبائی حکومتیں غیر متعلقہ ہیں اور وفاقی حکومت اپنے افسران کے ذریعے صوبوں کے کام چلاسکتی ہیں۔ بیوروکریسی اور پولیس وفاقی افسران کے ماتحت ہیں، اور صوبے کے وزیراعلی اور کابینہ کو کم ہی جوابدہ ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی نے خود کو تکنیکی ناک آؤٹ اور انتظامی شکست دی ہے۔لیکن، اُنکے خیال میں عمران خان اور پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت یا درپردہ قوتوں پر دباؤ ڈال کر وہ قبل از وقت انتخابات کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ لیکن، جہاں عام انتخابات میں چند ماہ باقی رہ گئے ہیں اسمبلیوں سے یہ استعفے وفاقی حکومت کو زیادہ پریشان نہیں کریں گے۔