Premium Content

معصوم گناہگار

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ڈاکٹر محمد کلیم

سلطان آج ایک کامیاب ترین انجینئرنگ فرم کا مالک تھا اور ایک خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کر رہا تھا۔ آج بھی جب بھی وہ وہ اپنے ماضی میں جھانکتا تھا تو ایک کسک اس کے دل میں اٹھتی تھی۔

سلطان بچپن سے ہی ایک محنتی طالب علم تھا اور اپنی اس خوبی کی بنیاد پر اپنے والد عبد الاحد صاحب کا چہیتا بیٹا تھا۔ غربت کے باوجود عبد الاحد اس کی تمام تعلیمی ضرورتیں پوری کرتا عبد الاحد کی تمام امیدیں سلطان سے وابستہ تھی کہ ایک دن وہ اپنے باپ کا نام روشن کرے گا۔ سلطان نے میٹرک بہترین نمبروں سے پاس کیا پھر ایف ایس سی میں بھی اپنے کالج میں اول رہا سلطان کو بچپن سے ہی ریاضی اور فزکس میں کافی دلچسپی تھی اس وجہ سے اس نے یونیورسٹی میں انجینئرنگ میں داخلہ لے لیا۔

یونیورسٹی کا ماحول سلطان کے لئے اجنبی تھا یہاں اس کا پہلی دفعہ واسطہ تمام قسم کے طبقوں سے ہوا یہاں امیر غریب تمام قسم کے طالب علم موجود تھے۔ اسی وجہ سے سلطان میں پہلی مرتبہ اپنی تمام تر تعلیمی قابلیت کے باوجود ایک احساس محرومی پیدا ہوا۔ سلطان اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کے والد اس کی تعلیم کا بوجھ کس طرح اٹھا رہے ہیں اور ان سے مزید مطالبہ کرنا ان کے لئے ایک شدید جھٹکا ہو گا اسی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس نے پارٹ ٹائم کوئی کام کرنے کا ارادہ کیا۔

جب اس نے اپنے والد سے بات کی کہ وہ پارٹ ٹائم کوئی کام کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات کا کچھ بوجھ اٹھا سکے جب یہ بات اس نے اپنے والد عبد الاحد کو بتائی تو وہ خاموش ہو گئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ سلطان کو محسوس ہوا کہ شاید ابا جی کو اس کی یہ بات گراں گزری ہے لیکن اس نے ہمت کر کے اپنی بات دہرائی کہ ابا جی اس کام سے اس کی تعلیم پر کوئی اثر نہ ہو گا۔ بلکہ وہ پہلے کی طرح محنت اور لگن سے تعلیم جاری رکھے گا۔

عبد الاحد نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا کہ اگر وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو کوئی ٹیوشن وغیرہ پڑھائے لیکن کسی فیکٹری میں یا کسی اور جگہ نوکری نہ کرے۔ سلطان یہ بات سن کر خوش ہو گیا کہ چلو ابا جی نے اس کو پارٹ ٹائم کام کرنے کی اجازت دے دی ہے اور اس کام سے اس کے پاس چند پیسے ہوں گے اور وہ یونیورسٹی میں آسانی سے اپنے اخراجات مکمل کر سکے گا۔ عبد الاحد نے وعدہ کیا کہ وہ سلطان کو ٹیوشن دلانے میں بھی مدد کرے گا۔

چند روز بعد عبد الاحد نے سلطان کو خوشخبری سنائی کہ ایک ان کے جاننے والے ہیں عبدالقدوس صاحب جو کہ محکمہ تعلیم میں کلرک ہیں اور ساتھ والے محلے میں رہتے ہیں۔ ان کو اپنے دو بچوں کو پڑھانے کے لئے استاد کی ضرورت ہے۔ کل قدوس صاحب دکان پر آئے اور تذکرہ کیا تو میں نے تمہارا نام لیا تو وہ مان گئے اور کہا اسے کل ہی میرے گھر بھیج دیں تاکہ تعارف ہو جائے، تم ان کے بچوں سے بھی مل لینا سلطان نے جواب دیا کہ ٹھیک ابا جی میں کل پانچ بجے شام قدوس صاحب کے گھر چلا جاؤں گا۔

سلطان نے قدوس صاحب کے گھر گھنٹی دی۔ تھوڑی دیر بعد دروازے کے پیچھے سے ایک نسوانی آواز آئی کہ کون ہے سلطان نے اپنا تعارف کروایا کہ اس کا نام سلطان ہے اور قدوس صاحب سے ملنا ہے۔ دروازہ کھل گیا اور اسے دوسرے کمرے میں بٹھایا گیا کہ وہ انتظار کرے۔ قدوس صاحب ابھی آتے ہیں۔ قدوس صاحب ایک بھاری بھرکم، کالے رنگ اور ڈھلتی عمر کے انسان تھے۔ وہ بڑے سلیقے سے سلطان کو ملے۔ اسی اثناء میں چائے اور دوسرے لوازمات بھی آ گئے اور چائے کے ساتھ ساتھ قدوس صاحب سے گفتگو کے سلسلہ جاری رہا۔

قدوس صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا کہ باقی معاملات ان کی بیوی عالیہ، سلطان سے طے کرے گی۔ عالیہ اپنے دونوں بچوں کو لے کر اندر داخل ہوئی نرگس اور واحد دونوں بچے کچھ گھبرائے ہوئے تھے۔ عالیہ نے بچوں کا تعارف کروایا اور بچوں کو کہا انکل کو سلام کریں۔ بچوں نے جھکتے ہوئے سلام کیا۔ ٹیوشن کا وقت تین بجے کا طے ہوا تاکہ شام کو سلطان اپنی پڑھائی کر سکے اور بچے بھی اپنی دوسری سرگرمیاں سر انجام دے سکیں۔

دو مہینوں میں ہی بچوں نے تعلیم میں توجہ دینی شروع کر دی بلکہ ان کے نمبر بھی بہت بہتر ہو گئے۔ عالیہ ان کی تعلیمی کارکردگی پر بہت خوش تھی۔ کبھی کبھی وہ سلطان کے پاس بیٹھ کر بچوں اور اپنے گھر کے معاملات پر بھی گفتگو کر لیتی تھی۔ عالیہ کی عمر لگ بھگ 30 سے 32 محسوس ہوتی تھی اور وہ دیکھنے میں کافی پر کشش تھی۔ لیکن سلطان کو محسوس ہوتا تھا شاید اس کو کسی غم یا دکھ نے گھیرا ہوا ہے۔ اس کی ہنسی میں بھی افسردگی دکھائی دیتی تھی۔

لیکن سلطان ایک سمجھدار انسان تھا اور اس کو اپنی حدود و قیود کا خوب اندازہ تھا۔ اس لئے جب عالیہ اور سلطان کی گفتگو ہوتی تو وہ زیادہ تر ہوں، ہاں میں جواب دیتا تاکہ عالیہ اور بچے غلط محسوس نہ کر لیں۔ عالیہ کی موجودگی میں اس کا سر ہمیشہ نیچا رہتا تاکہ اس کی نظریں عالیہ کی ٹٹولتی نظروں کا سامنا نہ کر سکیں۔ سلطان کو ایسا محسوس ہوتا کہ عالیہ اپنے غم کا مداوا کرنے کے لئے اس سے گفتگو کرتی ہے اور شاید اپنے دل کا کوئی حال بیان کرنا چاہتی ہے۔

لیکن سلطان کو یہ عالیہ کا ذاتی مسئلہ معلوم ہوتا اور وہ کوشش میں رہتا کہ عالیہ بچوں کے کمرے میں نہ آئے کیونکہ عالیہ کی باتوں سے اضطراب پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ سوچا کہ وہ ٹیوشن پڑھانا بند کر دے اور اس صورت حال سے جان چھوٹے۔ مگر ٹیوشن کے پیسوں سے اس کی زندگی میں کافی آسانی پیدا ہو گئی تھی۔

عالیہ نے اب اکثر سلطان کے پاس آنا شروع کر دیا تھا جس سے سلطان کا کافی وقت ضائع ہونا لگا۔ ساتھ ہی وہ کافی زیادہ کھانے کی اشیاء بھی سلطان کے کھانے کے لئے بھیجتی تھی۔ سلطان کو مزیدار کھانے عالیہ کی دلکشی اور اس کی رس بھری آواز اپنے حصار میں لیتی محسوس ہوئی عالیہ اب کھل کر اپنے اور قدوس صاحب کی ذاتی باتیں بھی سلطان سے کرنے لگی۔ سلطان ایک اچنبھے میں تھا لیکن وہ اس کا ذکر عالیہ سے نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اب رات کو اس کے ذہن میں عالیہ کا چہرہ اور باتیں گھومتی رہتی اور وہ اس کو سوچنے لگا تھا۔ اس کو تعجب ہوتا کہاں قدوس صاحب کالے بے ڈھنگے اور کہاں دلکش عالیہ، اللہ نے بڑا بے جوڑ رشتہ بنایا ہے۔

قدوس صاحب بھی سلطان کی عزت کرتے تھے۔ کبھی کبھی وہ جب جلد گھر تشریف لے آئے تو وہ بھی سلطان سے ضرور ملاقات کرتے۔ بچوں کے بارے میں پوچھتے اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے کہ بچوں میں کافی بہتری آئی ہے۔ اور کبھی کبھی موڈ میں ہوتے تو اپنی اور عالیہ کی گفتگو بھی کر جاتے اور اسے کافی سست کہتے۔ سلطان حیران ہوتا کہ قدوس صاحب کتنے عجیب ہیں۔ اتنی خوبصورت بیوی کے ہوتے ہوئے، وہ خوش نہیں ہیں۔ یہ بات تو سلطان پر واضح ہو چکی تھی کہ دونوں میاں بیوی کے تعلقات کشیدہ ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ خوش نہیں ہیں۔

ایک دن عالیہ نے سلطان کو کہا کہ وہ اس کو واپسی پر بازار چھوڑ دے۔ سلطان نے ہچکچاہٹ محسوس کی اور کہا لوگ کیا کہیں محلے والے باتیں بنائیں گے۔ عالیہ نے منہ بنا کر رونا شروع کر دیا اور کہا کہ وہ کتنی تنہا ہے اور اس کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ آخر تکرار کے بعد سلطان راضی ہو گیا۔ جب وہ عالیہ کو موٹر سائیکل پر اپنے پیچھے بٹھا کر روانہ ہوا تو اس کو ایک خوبصورت سا احساس دل میں پیدا ہوا۔ عالیہ کے جسم کا لمس ایک عجیب مسحور کن جذبات دے رہا تھا۔

سلطان کو محسوس ہوا کہ وہ دنیا کا خوش قسمت شخص ہے جس کے ساتھ اتنی دلکش حسینہ ہے۔ سلطان ان جذبوں میں آ کر بھول چکا تھا تھا کہ عالیہ ایک بیوی ہے اور دو بچوں کی ماں بھی ہے۔ سلطان خوش بھی تھا اور خوفزدہ بھی تھا۔ عالیہ نے اسے ایک مشہور ہوٹل پر روکنے کو کہا۔ اس نے اپنی موٹر سائیکل وہیں روک دی۔ عالیہ اس کو ہوٹل میں لے آئی اور کھانے کا آرڈر دیا۔ سلطان نے کچھ نہ کہا۔ عالیہ نے بتایا کہ قدوس اس کو کہیں بھی نہیں لے کر جاتے شادی کے بعد وہ ایک مرتبہ بھی اکٹھے کھانا کھانے نہیں آئے عالیہ خوش تھی اس نے سلطان کو مخاطب ہوتے ہوئے کہ وہ آج اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا راز بتانے جا رہی ہے کہ آج سے کچھ سال پہلے جب اس نے قدوس کو ہم جنس پرستی کرتے پکڑ لیا تو اس نے غصہ میں آ کر عالیہ کو طلاق دے دی۔ قدوس نے آج تک اپنے دل سے اس کو بیوی تسلیم نہیں کیا۔ وہ بس اپنی زندگی کے دن گزار رہی تھی کہ سلطان اس کی زندگی میں بہار بن کر آ گیا۔ اس نے سلطان سے وعدہ لیا کہ وہ اس کو تنہا نہیں کرے گا۔ سلطان نے عالیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس سے وعدہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کا ساتھ نبھائیں گے۔

سلطان کا اب پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا۔ جب وہ کتابیں اٹھاتا تو دل عالیہ عالیہ پکار اٹھتا۔ ایک دن اس کے والد نے کہا خیر ہے سلطان تم مجنوں کیوں بنے پھر رہے ہو آنکھیں لال ہیں بال اجڑے ہوئے ہیں اور شیو بھی نہیں بنائی۔ سلطان نے جواب دیا ابا جی امتحان نزدیک ہیں تو آج کل رات گئے تک پڑھتا ہوں۔ لیکن کافی دن سے سلطان سے بہت سے لوگ پوچھ چکے تھے کہ کہیں اس کو عشق کا مرض تو نہیں لاحق ہو چکا۔ سلطان اپنے دل سے پوچھتا کہ کہیں اس کو عشق تو نہیں ہو گیا۔

عالیہ اب روز فرمائش کرتی کہ اس نے سلطان کے ساتھ موٹر سائیکل پر جانا ہے۔ سلطان بہت سمجھاتا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ لوگ کیا کہیں گے۔ عالیہ جواب دیتی ان لوگوں کو میری کوئی پرواہ نہیں ہے۔ سارے محلے کو قدوس کی حرکتوں کے بارے میں معلوم ہے لیکن اس کو کوئی کچھ نہیں کہتا کہ باز آ جائے۔ سلطان نے عالیہ کو سمجھایا کہ قدوس صاحب مرد ہیں اچھا روزگار ہے گورنمنٹ ملازم ہیں تم عورت ہو اور میں ایک طالبعلم جس کے مستقبل کا کچھ پتہ نہیں ہے۔

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

سلطان نے مزید کہا کہ اس پر گھر کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں اگر مجھے باپ نے گھر سے نکال دیا تو میں خود کو اور تم کو کیسے سنبھالوں گا۔ عالیہ یہ بات سن کر رونے لگی اب مجھے اس دوزخ میں نہیں رہنا میرا اور قدوس کا رشتہ کب سے ٹوٹ چکا ہے یہ صرف دکھاوا ہے اور کچھ نہیں سلطان عالیہ کے آنسو کے آگے بے بس ہو گیا وہ سمجھنے لگا کہ وہ کوئی گناہ تو نہیں کر رہا لیکن یہ معاشرہ عجیب ہے نجانے لوگ کتنی باتیں کر رہے ہیں اور عالیہ کو سمجھ نہیں آ رہی ہے۔

سلطان نے بہت سوچا کہ وہ کیا کرے لیکن ہر مرتبہ عالیہ کی دلکشی اور آنسو اس کے قدموں میں زنجیر ڈال دیتے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی عالیہ کے اشاروں پر چلنے لگا اب اسے لوگوں کی باتیں بھی سنائی نہیں دیتی تھی۔ وہ پیار میں اندھا اور بہرہ ہو چکا تھا۔ ایک دن وہ اور عالیہ گھوم رہے تھے کہ قدوس نے دیکھ لیا۔ اس نے عالیہ کو خوب مارا تمھیں میری عزت کا کبھی خیال نہیں تھا۔ کم ازکم بچوں کا تو خیال کیا ہوتا سلطان نے جاتے جاتے یہ الفاظ اپنے کان میں سنے قدوس تمہاری تمام حرکتیں برداشت کیں اور گھر نہیں چھوڑا۔ تم مردوں کو ہمیشہ عورتوں کی حرکتیں نظر آتی ہیں کبھی مرد کی حرکتیں تو کسی نے نہیں دیکھیں۔

سلطان بہت خوفزدہ تھا اور اس کو محسوس ہو رہا تھا کہ ایک طوفان آنے والا ہے۔ وہ اپنے باپ کو کیا منہ دکھائے گا۔ کیونکہ آج نہیں تو کل قدوس صاحب شکایت لے کر ابا جی کے پاس آئیں گے۔ پھر کیا بنے گا؟ یہی باتیں سوچتے سوچتے سلطان کو نیند آ گئی۔

صبح وہ یونیورسٹی کے لئے وقت سے پہلے ہی نکل گیا۔ تاکہ ابا جی سے ملاقات نہ ہو سکے لیکن اس بات کا تو چرچا ہونا تھا۔ قدوس عبد الاحد کے پاس شکایت لے کر آیا کہ سلطان کو اس نے بیوی کے ساتھ موٹر سائیکل پر گھومتے دیکھا۔ احد نے بات غور سے سنی اور جواب دیا کہ قدوس صاحب اگر قصور میرے بیٹے کا ہے تو آپ کا بھی ہے۔ میرا بیٹا جوان خون ہے اور جوانی میں تو ایسا ہو جاتا ہے۔ آپ جائیں اور جا کر اپنی بیوی کو سنبھالیں اور اس کی گرمی اتاریں۔

قدوس بکتا جھکتا احد کی دکان سے نکل گیا۔ جب سلطان گھر پہنچا تو ابا جی کو پریشان پایا۔ ابا جی نے پوچھا تم قدوس کی بیوی کے ساتھ کیا کر رہے تھے؟ سلطان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ احد نے سلطان کو کہا دفعہ ہو جائے اور آئندہ اس سے کلام نہ کرے۔ سلطان نے باپ سے معافی مانگی پھر ابا جی خاموش رہے۔ سلطان کی ماں نے کہا بیٹا تم اپنے کمرے میں جاؤ پھر بات کریں گے۔

قدوس نے عالیہ کو گھر سے نکال دیا۔ علیحدگی کے بعد عالیہ کو ایک اور لڑکا بھا گیا اس نے اس لڑکے کے ساتھ شادی کر لی اور خوش گوار زندگی بسر کرنے لگی۔ دوسری طرف قدوس کو اب عالیہ یاد آنے لگی اور اس کی یادیں پچھتاوا بن کر ستانے لگی۔ وہ جب اپنے بچوں کے محرومی بھرے چہرے دیکھتا تو اس کو اپنی غلطیوں کا سانپ ڈسنے لگتا۔ دن گزرتے گئے سلطان اپنی پڑھائی میں اس قدر ڈوب گیا تاکہ وہ عالیہ کو بھول جائے مگر آج بھی اس کے ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ اس سارے واقعہ میں غلطی کس کی تھی؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos