مایوسی بغاوت کو جنم دیتی ہے

مصنف: طاہر مقصود

مصنف پنجاب پولیس سے ریٹائرڈ ایس ایس پی ہیں۔

گزشتہ روز خیبرپختونخواہ کے ”ہوم ڈیپارٹمنٹ“ کی طرف سے شائع کردہ نوٹی فکیشن نمبرایس او (پولیس-ٹو)/ایچ۔ڈی/1-589/2022بتاریخ 21 اکتوبر 2022ء نظر سے گزرا۔ نوٹی فکیشن کا عنوان خاصہ دلچسپ ہے۔ دی خیبرپختونخوا پرووانشل پولیس( نان شیڈول پوسٹس) سروس رولز 2022۔

رول 2(بی )کے مطابق صوبائی پولیس کے ملازمین پر یہ رولز لاگو ہونگے رول 5میں صوبائی سلیکشن بورڈ کا تذکرہ ہے مگر پولیس کا کوئی آفیسر بورڈ کا ممبر ہی نہ ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ کہ عنوان میں نان شیڈول پوسٹوں کا ذکر ہے مگر رولز کے ساتھ منسلک شیڈول کے مطابق صرف دو آسامیاں(الف) ڈائریکٹر جنرل پولیس کوآرڈنیشن یونٹ/کمانڈنٹ اسپیشل سکیورٹی یونٹ/ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس (فنانس) (بی پی ایس-20) (بی) ڈپٹی کمانڈنٹ اسپیشل سیکورٹی یونٹ/ڈائریکٹر بم ڈسپوزل یونٹ (بی پی ایس-19) پیدا کی گئی ہیں اور یہ آسامیاں صوبائی پولیس افسران کیلئے مخصوص کی گئی ہیں۔ اگر ترقی کے لیے آفیسر میسر نہ ہوتو اسی پے سکیل پر موجوددیگر آفیسر کو بھی آسامی پر تعینات کیا جاسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ یہاں پر بھی پی ایس پی افسران کے لیے گنجائش نکال لی گئی ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے شیڈولڈ اور نان شیڈولڈ پوسٹ کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔ پولیس سروس آف پاکستان رولز1985 کے ساتھ لف شدہ شیڈول میں ایس پی سےآئی جی تک آسامیوں کا ذکر ہے۔ فیڈریشن، ریلوے، موٹروے، گلگت بلتستان اور چاروں صوبوں کو ملا کر یہ کل 590 پوسٹیں ہیں۔ شیڈول میں ہونے کی وجہ سے یہ تمام شیڈول پوسٹیں ہیں۔ پولیس آرڈر 2002ء کے بعد تمام صوبائی حکومتوں نے ضرورت کے مطابق پوسٹوں میں اضافہ کرلیا مثلاًایس پی تفتیش، ریجنل افسران سی ٹی ڈی ، ڈویژنل ایس پی، ایس پی ٹریفک، ریجنل اور صوبائی شعبہ تفتیش برانچ وغیرہ، یہ تمام نان شیڈول پوسٹیں ہیں۔ صوبائی ہوم ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ”شیڈولڈ“ اور ”نان شیڈولڈ“ پوسٹوں کو باقاعدہ نوٹی فکیشن کے ذریعے سرکاری گزٹ میں شائع کرے جو تاحال کسی صوبہ میں شائع نہ کی گئی ہیں۔

خیبرپختونخواہ حکومت کے جاری شدہ نوٹی فکیشن متذکرہ بالا کا پس منظر یوں ہے کہ کے پی کے صوبائی پولیس کے چند افسران نے عدالت عالیہ پشاور سے رجوع کیا کہ اُنہیں ایس پی رینک سے اوپر صوبے میں ترقی دی جائے، عدالت نے حکم دیا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں مل کر کوئی لائحہ عمل بنائیں لیکن اس حکم پر عمل نہ ہوا تو ایک افسر نے توہین عدالت کی درخواست دائر کردی۔ چنانچہ عدالت کی مداخلت پر یہ رولز بنائے گئے مگر کمال چالاکی سے کام لیا گیا اور صوبہ میں ایک پوسٹ گریڈ19اور ایک پوسٹ گریڈ20کی بنا کراور ان کو نان شیڈول پوسٹ قرار دے کر صوبائی پولیس افسران کے لیے مخصوص کردیا گیا، جبکہ دیگر نان شیڈول آسامیوں کے بارے میں کوئی تذکرہ نہ کیا گیا۔  اس طرح عدالت سے رجوع کرنے والے افسر کو وقتی طور پر خاموش کرا دیا گیا۔

میرا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ اس بحث میں پڑے بغیر کہ پی ایس پی رولز1985آئینی ہیں یا غیر آئینی اور صوبائی پوسٹوں پر وفاقی پولیس افسران کی تعیناتی جائز ہے یا ناجائز شیڈولڈ پوسٹوں کو چھوڑ کر دیگر تمام پوسٹوں (نان شیڈول) پر صوبائی سطح پر صوبائی پولیس کے افسران کی ترقی اور تعیناتی کی جائے اور اس کے لیے قواعد صوبائی سول سرونٹ ایکٹ کی رو سے صوبائی سطح پر ہی بنائے جاسکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے پی ایس پی افسران جن کا کردار فیصلہ سازی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے کو اپنی ضد چھوڑنی ہوگی۔ پولیس آرڈر2002ء میں صوبائی سطح پر ایس پی کی ترقی کا اختیارصوبائی حکومت کو دیاگیاہے تو عملی طور پر پولیس سروس آف پاکستان کے قیام کے نوٹی فکیشن کی شق 4اور5جن کی رو سے کہا جاتا ہے کہ ایس پی اور اُس سے اوپر کی تمام آسامیاں پی ایس پی کے لیے مخصوص ہیں ناقابل عمل  ہوگئی ہیں مزید یہ کہ ان شقوں پر کبھی عمل ہی نہ کیا گیا تھا۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک کیس کی سماعت کے دوران پولیس آرڈر2002ء پرعمل کرنے کا حکم دیا ہے مگر مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو، پنجاب کی موجودہ نگران حکومت نے تو گریڈ21کی پوسٹ پر گریڈ19کے افسرکو ریجنل پولیس آفیسر گوجرانوالہ تعینات کرکے عدالتی حکم کا باقاعدہ مذاق اڑایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ محکمانہ قواعد پر عمل کرانا محکمہ کے سربراہ کا کام ہوتا ہے اور محکمہ جات کے سیکرٹری عملی طور پر اس سلسلہ میں حکومت کے مشیر ہوتے ہیں اور تمام تعیناتیوں پر انتظامی معاملہ ہونے کی وجہ سے محکمہ کے سربراہان کے ہی دستخط ہوتے ہیں لہذا عدالتوں میں جواب دہ بھی وہی ہوتے ہیں۔

پولیس آرڈر 2002ء اب وفاقی قانون نہ رہا ہے بلکہ تقریباً تمام صوبوں نے اپنے اپنے پولیس ایکٹ بنالیے ہیں یا اس میں ضروری ترامیم کرلی ہیں مگر بنیادی طور پر یہ قوانین بھی پولیس آرڈر 2002ء ہی کی نقل ہیں اور اس وقت تعیناتیوں کے حوالے سے کسی بھی صوبہ میں اس پر عمل نہ ہورہا ہے اور اس کی بڑی وجہ پی ایس پی افسران ہیں کیونکہ پولیس کی کمانڈ ہمیشہ سے پی ایس پی افسران کے پاس رہی ہے اور اس وقت بھی ہے۔

پولیس کو وسائل کی فراہمی حکومت کا کام ہے جو وہ اپنی بساط کے مطابق کرتی ہیں ان وسائل کا استعمال پولیس کی لیڈر شپ نے کرنا ہوتا ہے اور اپنی ضروریات سے حکومت کو آگاہ کرنا ہوتا ہے تمام صوبائی حکومتوں نے سالانہ بجٹ میں پولیس کی صوبائی پوسٹوں کے لیے تنخواہوں کی مد میں رقوم مختص کی ہوئی ہیں مگر صوبائی پولیس کے سربراہان اور ہوم سیکرٹریز کی عدم دلچسپی کی وجہ سے صوبائی پولیس افسران کی ترقی کے لیے قواعد نہ بن پارہے ہیں اور یہ آسامیاں خالی رہ جاتی ہیں اور افسران کی عدم موجودگی کی وجہ سے نظام درست کام نہ کرے تو عوام الناس کی مشکلات میں اضافہ تو یقیناً ہوتا ہے مگر حکومت وقت کی بدنامی کا باعث بھی ہوتا ہے۔

اس وقت صوبوں میں پولیس کی بہت ساری آسامیاں گزشتہ کئی سالوں سے خالی پڑی ہیں اور صوبائی پولیس کے افسران نے ترقیوں کے لیے عدالتوں میں درخواستیں دی ہوئی ہیں۔ خالی آسامیوں کو پرُ کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ صوبائی پولیس افسران کو صوبہ کی سطح پر ترقیاں دی جائیں۔ اس وقت صوبائی پولیس میں محکمانہ ترقیوں کو لے کر شدید مایوسی پائی جاتی ہے اور مایوسی ہمیشہ بغاوت کو جنم دیتی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصہ قبل  تک جیسے پی ایم ایس افسران ہڑتالیں کرتے تھے صوبائی پولیس افسران بھی ہڑتال کردیں جو نہ صرف پولیس لیڈر شپ بلکہ حکومت وقت کے لیے بھی شرمندگی کاباعث ہوگی۔

1 thought on “مایوسی بغاوت کو جنم دیتی ہے”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos