مزدور ہیں لیکن یوم مئی نہیں



” یہ جسم و جاں تیری عطا سہی لیکن
تیرے جہاں میں جینا کچھ ہنر میرا بھی تھا “
شعر پڑھتے پڑھتے آنکھوں میں آنسو آگئے. زندگی سے زندہ رہنے کے علاوہ کوئی مطالبہ کبھی بھی نہیں رہا تھا. خوبصورت تھی. پڑھنے لکھنے کا شوق بھی تھا اور دنیا سمجھنے کا ذوق بھی .
والد بہت پیار کرتے تھے۔ دنیا سے رخصت ہوے تو پرائمری میں تھی. بھائی جوان تھے ۔ ماں جوان بیٹوں سے ڈرتی رہتی اور دونوں بیٹیوں کو ڈراتی رہتی. بہن کی شادی ہوئی تو گریجویشن کے پہلے سال میں تھی .کچھ ہی دن گزرے کہ ماں بھی چل بسی ۔ بہن کے دیور کا رشتہ آیا.دبے لفظوں بہن نے منع کرنے کی کوشش کی لیکن ماں کی کوئی سنتا تھا جو ان کی سنتا؟. مرضی کرنے والوں نےہمیشہ کی طرح اپنی مرضی کی .شوہر شریک حیات ہوتا ہے مگر شریکا نکلا. اسے غریب سمجھتا ،غریب بھی وہ جس پر مکمل دسترس حاصل تھی. “تمہارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو، سو کرو”. رو دھو کے تعلیم جاری رکھی .پہلا مس کیرج ہوا تو وہ پاس نہیں تھا. بتانے کے باوجود آیا بھی نہیں. فرشتہ صفت سہیلی کے گھر رہی. سہیلی کے ماں باپ نے ماں باپ کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا. زندگی کی مشق سخن جاری رہی اور پڑھائی کی لگن بھی. سنتے تھے کہ ماں بچے کو دودھ پلانے کا معاوضہ لے سکتی ہے مگر یہاں تو کسی خدمت کا کوئی معاوضہ نہیں تھا.” بس نام ہی کافی ہے “پر زندگی گزر رہی تھی ۔ بچے بھی ہوتے رھے اور مس کیرج بھی. نوکری کر لی۔ زندگی کچھ آسان ہوئی مگر بچوں کی خواہشیں اور بڑھتی ہوئی ضروریات زندگی:
” زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے”
۔بچے دل موہ لیتے .زندہ رہنے کا جواز فراہم کرتے رہتے ۔ ایک دن فیصلے کا موڑ آیا. بڑی بیٹی نے کہا، ” مما میں اپ کی زندگی نہیں جینا چاہتی .اس شخص سے الگ ہو جایں.”طلاق مانگی ،نہیں ملی. خلع دائر کر دیا .دنیا مخالف ہو گئی. ٹھان لیا تھا .عدالت نے حق دے دیا. بچوں کے خرچے کا دعوی کیا تو ہر حر بہ آزمایا گیا .تنخواہ میں گزارا مشکل تھا. ہاتھ پھیلانے کی عادت نہیں تھی. اللہ تعالی نے اسباب پیدا کر دیے. چند لوگ مدد کرنے لگ گئے . اتنا عرصہ اس کی ذات سے ہر طرح کی لذت کشید کرنے والا جگہ جگہ بدنام کرنے لگا . نہ سوچا کہ کل اس نے اس کے بچوں کی شادیاں کرنی ہیں. شریک حیات تو کبھی بن نہیں سکا تھا،بچوں کا باپ بھی نہ بن پایا .زمانے بھر کی نظروں میں سوال تھے .بعض کی زبان پر بھی آجاتے . جواب دینا چھوڑ دیا .اللہ تعالی کو اپنا کفیل سمجھا , اپنا وکیل سمجھا. سوچتی کہ اس کی مزدوری کون دیکھ رہا ہے؟ اس کا یوم مئی کبھی آئے گا یا نہیں؟ اسلام کی ابتدائی دور میں خاتون اپنے شوہر سے اس لیے الگ ہو گئی تھی شوہر کی شکل و صورت سے سمجھوتا نہ کر پائی .کسی نے انگلیاں نہیں اٹھائی . دین میں تو خاتون کی عزت ہی عزت ہے . تکریم ہی تکریم ہے .:—
” یہ عجیب لوگ ہیں جن کے بیچ بکھر رہی ہے متاع عمر
نہ کسی پہ گرد جنون ہے نہ کہیں غبار شعور ہے “
شاعر نے بالکل بجا کہا :–
“میرا حسین ابھی کربلا نہیں پہنچا
میں حر ہوں اور لشکر یزید میں ہوں

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com


وطن عزیز میں سنگل پیرنٹ ہونا اسان کام نہیں ۔ نہ بچوں کی خواہش ماری جاتی ہے ٫ نہ زمانے کی نظر سنواری جاتی ہے .جس درندے سے نجات پائی ہوتی ہے لوگوں کی ہمدردیاں اسی کے ساتھ ہوتی ہیں .کوئی سچ بول کے ہار جاتا ہے اور کوئی جھوٹ سےلا جواب کرتا رہتا ہے.معاشرہ نہیں سوچتا کہ عورت اتنا بڑا فیصلہ کس لیے کرتی ہے؟ ااتنی مشکلات کیوں گوارا کرتی ہے؟.؟اسے لگا کہ کچھ مزدور ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا اس دنیا میں کبھی یوم مئی نہیں آتا .دنیا کی سب سے متبرک مزدوری کرتے ہیں.ان کی لیبر ،لیبر روم سے بھی بہت پہلے شروع ہوتی ہے۔ “نو گین ود آؤٹ پین” ۔وہ مہد سے لحد تک مزدوری کرتے رہتے ہیں ۔بچے اس پر فخر کرتے تھے ،وہ بچوں پر جان دیتی تھی۔ یہی اس کی کامیابی تھی. اول آخر ماں تھی ۔لگا دنیا جو مرضی سمجھے، وہ کسی موڑ پر بھی نہیں ہار ی ۔بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے اور تربیت بھی. تمام لوگ اپنے اپنے قبیلے کے ساتھ تھےتو وہ بھی بے سر و سامان نہیں تھی. دوست میسر تھے. وہی دوست جو اسے جانتے بھی تھے, پہچانتے بھی تھے اور مانتے بھی تھے.سابقہ شوہر ہر جاننے والے کو فون کرتا ، دل کی بھڑاس نکالتا .بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کر چکا تھا. ابھی بھی اس کی کوششیں جاری تھیں. تھکتا نہیں تھا تو تھکی وہ بھی نہیں تھی. اس نے کبھی خالق کائنات کی نافرمانی نہیں کی ۔ نبی سے عشق تھا ۔ اللہ تعالی کا خوف ہمیشہ دل میں رہا ۔ ایمان تھا کہ اللہ تعالی نے حق دیا ہے کہ وہ اگر کسی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، تو نہ رہے۔ خلع لینے کے بعد بھی اپنے سابق شوہر کے بارے میں کبھی عامیانہ زبان استعمال نہیں کی ۔ ذکر کرنے سے ہمیشہ گریز کرتی ۔ سسرال کو کبھی برا بھلا نہیں کہا۔ شوہر کو کسی مرد کے لیے نہیں صرف اپنی اولاد کے لیے چھوڑا ۔ یہ بات چند دوست سمجھتے ۔ دل اللہ تعالی کے احساس تشکر سے معمور ہوتاچلا گیا ۔ پڑھا،پاؤں میں کانٹا چبھنے کا بھی اجر ملے گا ۔خیال آیا کہ عمر ایسے شخص کے ساتھ گزاری تھی جسے شاید احساس ہی نہیں تھا کہ قیامت کے دن کیا پوچھا جائے گا؟ ۔ پیغمبر نے ہر موقع پر تاکید کی تھی کہ ا ہل خانہ کے حقوق ادا کیا جائیں، بہترین سلوک کیا جاے ۔ جو حقوق اسلام خواتین کو دیتا ہے ،اور کوئی نہیں دیتا ۔ سوچتی اسلام اور مسلمانوں میں اتنا تفاوت کیسے اگیا؟ مسکرا پڑتی:–
” مجھے فکر جہاں کیوں ہو
یہ جہاں تیرا ہے یا میرا”؟
اللہ کے حضور توبہ کرتئ. ایت پڑھی:’ زندگی اور موت پیدا اس لیے کیے گئے کہ دیکھا جائے کون کیسے اعمال کرتا ہے؟” لگا ہم سب مزدور ہیں ۔تنخواہ روز حساب ملے گی ۔دعامانگی:٫
“رب العزت! مجھے ہدایت دے ۔تیری کمزور بندی ھوں۔اک ظالم نے عمر بھر رلایا ۔یتیم تھی ،دل دکھایا ۔ابھی بھی میرا اور میرے بچوں کا سکون تباہ کرنے کے درپے ہے.
مولا ! اسے ہدایت دے ۔اگر ہدایت نصیب نہیں تو اس کو برباد کر ۔عبرت کا سامان بنا ۔لوگ اس کے انجام سے سبق سیکھیں ۔مجھے اور میرے بچوں کو اس کے شر سے محفوظ رکھ ! آمین

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos