طارق محمود اعوان
پاکستان کے سرکاری اداروں میں ہراسانی ایک دیرینہ اور گہرے مسائل میں سے ایک ہے، جو اکثر طاقت کے ناجائز استعمال اور ماتحت ملازمین کے ساتھ نازیبا سلوک کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف صنفی امتیاز تک محدود نہیں بلکہ اس کی بنیادیں ادارہ جاتی طاقت، بے لگام اختیار اور سماجی رویّوں میں پیوستہ ہیں۔ سرکاری ملازمت کے دوران ایک دہائی سے زائد کا تجربہ رکھنے کے بعد، میں نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ ہراسانی کا تصور کس قدر پیچیدہ ہو چکا ہے۔
ہراسانی سے مراد وہ تمام رویے ہیں جو کسی بھی فرد کی عزتِ نفس کو مجروح کریں یا اسے ذہنی اذیت میں مبتلا کریں۔ ان رویّوں میں نازیبا الفاظ، دھمکیاں، بلاجواز تبادلے، ترقی کی راہ میں رکاوٹیں، اور انضباطی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ عموماً اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کی طرف سے کیا جاتا ہے، جنہیں جوابدہی کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ میں نے اپنی ملازمت کے دوران مختلف محکموں، خصوصاً صحت اور تعلیم کے شعبوں میں، خواتین کو اس طرح کے رویّوں کا نشانہ بنتے دیکھا ہے، جہاں ان سے بدلے میں تبادلے یا ترقی کی پیشکش کی جاتی ہے۔
اگرچہ پاکستان میں “خواتین کو کام کی جگہ پر ہراسانی سے تحفظ کا قانون 2010” نافذ کیا گیا ہے، مگر اس پر مؤثر عملدرآمد تاحال ایک خواب ہی ہے۔ اکثر اداروں میں انکوائری کمیٹیاں اقربا پروری اور جانبداری کا شکار ہوتی ہیں، اور شکایت کنندہ کو انصاف حاصل کرنے کے بجائے مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین ملازمین کو بدنامی، کردار کشی اور ملازمت سے ہاتھ دھونے کا ڈر ہوتا ہے، جس کے باعث وہ خاموشی اختیار کرتی ہیں۔
تاہم اس مسئلے کا ایک اور حساس پہلو بھی ہے، جس کا ذکر کرنا نہایت ضروری ہے۔ کچھ معاملات میں خواتین نے اس قانون کو اپنے ذاتی یا انتظامی مفاد کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ واقعات اگرچہ کم ہیں، مگر ان کی موجودگی سے نہ صرف قانون کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ اصل متاثرین کی شکایات بھی شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھی جانے لگتی ہیں۔ یہ رویہ انصاف کے راستے میں ایک رکاوٹ بن جاتا ہے۔
اس حوالے سے ایک اہم اور پیچیدہ مثال ممتاز افسر جناب معظم اقبال سپرا کا کیس ہے۔ سپرا صاحب ایک دیانتدار اور بے باک افسر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، جنہوں نے بطور ڈائریکٹر جنرل پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی بدعنوانی کے خلاف متعدد اقدامات کیے۔ انہی اقدامات کے تحت ایک خاتون ملازم کو معطل کیا گیا، جس کے بعد اس خاتون نے ان کے خلاف ہراسانی کی شکایت درج کروا دی۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ واقعی ہراسانی کا کیس ہے یا محض ایک انتقامی کارروائی؟ اگر سپرا صاحب اپنی اپیل میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو کیا جھوٹی شکایت کنندہ کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟
Please subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality podcasts:
یہاں قانون کی خامی واضح ہو جاتی ہے کہ جھوٹے الزامات پر کوئی ٹھوس سزا یا تادیبی اقدام موجود نہیں۔ ایسے قوانین کو متوازن اور منصفانہ بنانا وقت کی ضرورت ہے تاکہ ہر فرد کے لیے عدل کا دروازہ کھلا رہے۔ اگر ایک بے گناہ شخص پر جھوٹا الزام عائد کیا جاتا ہے تو یہ نہ صرف اس کی ساکھ بلکہ پورے نظام عدل پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
حال ہی میں سپریم کورٹ کے معزز جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے ایک فیصلے میں ہراسانی کی تعریف کو وسعت دی ہے۔ اس نئے تناظر میں ہراسانی صرف جنسی نوعیت کے رویے تک محدود نہیں بلکہ کسی افسر کی جانب سے اپنے اختیارات کے غلط استعمال، جیسے تبادلہ، ترقی کی راہ میں رکاوٹ، یا انضباطی کارروائی، بھی اس زمرے میں آتے ہیں۔ یہ وسعت اس لیے اہم ہے کہ سرکاری اداروں میں ہراسانی اکثر “پیشہ ورانہ رویے” کی آڑ میں چھپی ہوتی ہے۔
ضروری ہے کہ ہم یہ بھی تسلیم کریں کہ ہراسانی کا شکار صرف خواتین نہیں ہوتیں۔ کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں مرد افسران کو بلیک میلنگ، جھوٹے الزامات اور کردار کشی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مذہبی تاریخ میں حضرت یوسف اور زلیخا کا واقعہ اس حقیقت کی ایک مثال ہے کہ بعض اوقات طاقتور افراد خواہ کسی بھی جنس سے تعلق رکھتے ہوں، انتقامی کارروائیوں کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کر سکتے ہیں۔
پاکستانی بیوروکریسی کو تین سطحوں پر اصلاحات کی ضرورت ہے:
قانونی سطح پر: ہراسانی کے قوانین کو صنفی توازن کے ساتھ دوبارہ مرتب کیا جائے، تاکہ جھوٹے الزامات لگانے والوں کے لیے بھی سزا کا تعین کیا جا سکے۔
انتظامی سطح پر: ہر ادارے میں غیر جانبدار اور تربیت یافتہ افسران پر مشتمل کمیٹیاں قائم کی جائیں تاکہ شکایات کا منصفانہ طریقے سے جائزہ لیا جا سکے۔
سماجی سطح پر: اداروں میں مکالمے اور آگاہی کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں ہر فرد کو عزت اور انصاف میسر ہو، اور ہراسانی کو برداشت نہ کیا جائے۔
ہراسانی کا مسئلہ محض خواتین کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک انسانی، اخلاقی اور انتظامی مسئلہ ہے جس کا تعلق طاقت، اختیار اور ادارہ جاتی شفافیت سے ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم انصاف کو ہر فریق کے لیے مساوی بنائیں۔ جناب معظم اقبال سپرا جیسے دیانتدار اور بے باک افسران کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا پورا موقع ملنا چاہیے، اور اگر وہ سچے ثابت ہوتے ہیں تو قانون کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ جھوٹے الزامات عائد کرنے والوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لا سکے۔ صرف اسی صورت میں ہم ایک مہذب، منصف اور باوقار سرکاری ماحول قائم کر سکتے ہیں۔