تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
عقل موٹی ہو تو زندگی کھوٹی ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات اپنی کم اور دوسروں کی زیادہ۔ میرے ایک دوست کے بقول عقل موٹی ہو تو آدمی چلتی پھرتی سوٹی بن جاتا ہے۔ وہ لوگوں پر برستا ہے۔ حکمت کیلئے ترستا ہے مگر اُس کو احساس تک نہیں ہوتا۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے دیہاتوں میں جب بچے سکول جانا شروع کرتے تھے تو اُن سے ہر شخص ایک سوال ضرور کرتاتھا ”عقل بڑی یا بھینس؟“۔ سمجھدار بچے مختلف لوگوں کو مختلف جواب دیتے تھے۔ کسی کسی کو ہردفعہ ہربچے سے ایک ہی جواب ملتا تھا”بھینس“۔ یہ جواب بالکل درست ہوتاتھا۔
تقدیر ایسی چیز ہے کہ دنیا میں کسی کے پیٹ میں سدا روٹی، منہ میں بوٹی اور ہاتھ میں سوٹی ہوتی ہے۔ جبکہ کچھ لوگوں کے لیے زندگی کی ہر ساعت کھوٹی ہوتی ہے۔ خاندان سے باہر کسی بھی صورت رشتہ نہ کرنے کی فرسودہ رسم کی وجہ سے ایک تعلیم یافتہ اور خوبصورت خاتون کی شادی اُن کے ایک چچازاد بھائی سے ہوگئی۔ بھائی صاحب نہایت کام چور اور کاہل انسان تھے۔ شکل و صورت بھی واجبی سی تھی۔ ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ خاتون والدین کی عزت کی خاطر گزارہ کررہی تھیں۔ انہیں گاؤں میں ایک جگہ ایک آدمی کئی دفعہ چپ چاپ بیٹھا نظرآیا۔ وہ جوان انتہائی خوبرو تھا۔ خاتون نے کبھی اُس کو بولتے نہ دیکھا۔ وہ ہمیشہ سرجھکائے چپ چاپ بیٹھا رہتا۔ وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ شہر میں تعلیم حاصل کررہا تھا۔ ایم۔اے پاس کرنے کے بعد واپس گاؤں آیا۔ والد صاحب کے ساتھ بن نہ سکی۔ کچھ عرصہ بعد والد صاحب انتقال کر گئے۔ اُن کے مرنے کے بعد گم سم بیٹھا رہتا ہے۔ کسی سے بات نہیں کرتا۔ خاتون کہنے لگیں ”ہمارے مسائل کی وجہ یہی ہے کہ جوکام کے لوگ ہیں وہ خود پاگل ہوچکے ہیں اورجو نالائق ہیں وہ دوسروں کو پاگل کیے کھڑے ہیں“۔
روٹی اپنی جگہ بعض اوقات سوٹی بن جاتی ہے۔ ایک شاعر نے بڑے دکھ سے کہا تھا ”بندہ روٹی نہیں کھاتا، روٹی بندہ کھا جاتی ہے“۔ بعض لوگ ساری زندگی روکھی سوکھی کھاتے رہتے ہیں اور اُن کے سامنے انہی جیسے انسانوں کے کتے دن رات من پسند بوٹیاں نوچتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات کوئی آدمی ایک بوٹی کو ترستا ہوامر جاتا ہے اور اس کے مرنے پر گوشت کی دیگیں پک رہی ہوتی ہیں۔ کسی عقل مند نے کیا خوب کہا ہے ”پیٹ اور دماغ میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ پیٹ خالی ہوتوفوراً ہی بتا دیتا ہے۔ سب کچھ بھلا دیتا ہے۔ بعض اوقات آدمی پیٹ بھرنے کے چکر میں عزت تک گنوا دیتا ہے جبکہ دماغ خالی ہو تو بھلے ساری دنیا تالی بجا رہی ہوموٹی عقل والے کو احساس تک نہیں ہوتا۔ عقل موٹی ہوتو بندہ حساس نہیں ہوتا اور حساس لوگوں کو پسند بھی نہیں کرتا“۔ عقل مند وہ ہے جو اپنی سوچ کا در بند نہیں کرتا۔ دردمند ہوتا ہے۔ قوم کا فرزند ہوتا ہے۔ اُسے اردگرد کے لوگوں کااحساس رہتا ہے، وہ دنیا میں کہیں بھی ہو، اُس کا دل اپنے لوگوں کے پاس رہتا ہے۔
Watch details of the survey in the YouTube link and subscribe the channel for detailed political analysis
زندگی کی چوٹی سر کرنے کیلئے عقل موٹی اورتقدیر کھوٹی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر شومئی قسمت سے عقل موٹی یا تقدیر کھوٹی نکل آئے تو قدرت نے انسان کو ایک بہت بڑی سوٹی عطا کی ہوئی ہے۔ انسان مگر اس طرف دھیان نہیں دیتا۔ دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے۔ دعا ایک ایسی سوٹی ہے جس کی برکت سے انسان کو نہ صرف روٹی اور بوٹی وافر ملتی ہے بلکہ وہ عظمت کی چوٹی بھی سر کرسکتاہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے بزرگ دعائیں دینے کے بہت شوقین ہوتے تھے۔ ہمارا معاشرہ آنے والی نسل کی تربیت ان خطوط پر کرتاتھا کہ وہ دعائیں لیں اور دعائیں دیں۔ بددعا کو بدترین گناہ سمجھا جاتاتھا۔ خیر مانگی اور خیر پہنچائی جاتی تھی۔ موٹی عقل والے لوگ مل جاتے تھے۔ لوگوں کی چمڑی موٹی نہیں ہوتی تھی۔ لوگ خیال رکھنے والے تھے۔ کسی بھی آدمی کو روٹی اور بوٹی کی فکر زیادہ دیرنہیں ہوتی تھی۔ لوگوں کو پیغمبر خدا ﷺ کا یہ فرمان یاد تھا کہ ”مومن اگر خود پیٹ بھر کر کھاتا ہے تو اپنے اردگرد کسی کو بھوکا نہیں رہنے دیتا“۔ لوگ ایک دوسرے کے حالات پر نظر رکھتے تھے۔ ملیں اگرچہ کم تھیں مگر مل بانٹ کر کھانے کا رواج زیادہ تھا۔ اناج جتنا بھی تھا، برکت بہت تھی۔ معاشرہ دعا اور وفا کا معاشرہ تھا۔ بددعا اور دغا کا رواج تک نہ تھا۔ لوگ یہ یقین رکھتے تھے کہ دعا سے تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔ ہمارے بزرگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ ”دعا کے علاوہ کوئی چیز تقدیر کے مقابلے میں کارگر نہیں ہوسکتی۔ دعا کبھی بیکارنہیں جاتی۔لوگ بددعا سے ڈرتے تھے۔ تقدیر پر ایمان تھا۔ ایک دوسرے کے حالات پر دھیان تھا۔ خوشحال کسان تھا۔ بزرگ مہان تھا۔ زندگی کی چوٹی سر کرنا آسان تھا۔
اب لوگ وفا کرنا بھی چھوڑتے جارہے ہیں اور ایک دوسرے کیلئے دعا کرنا بھی۔ ایک دوسرے کیلئے تو کیا ہم اب اپنی ذات کیلئے بھی دعا نہیں کرتے۔ لوگ بھول گئے ہیں کہ گئے وقتوں میں بڑی سے بڑی مصیبت کے وقت بھی لوگوں کو اپنی دعا پر یقین ہوتاتھا۔ اچھے اعمال کو یاد کرکے دعا کرنا ہمارے اسلاف کا شیوہ رہا ہے۔ ہمارے بزرگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ چند لوگ غار میں پھنس گئے۔ سب نے اپنے اپنے نیک اعمال کو یاد کر کے دعا کی۔ غار کا راستہ کھل گیا۔ اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی کا دامن جب بھی انسان کو تنگ لگنے لگے تو دعا ایسے امکانات کے در کھولتی ہے جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ہمارے بزرگ ہمیشہ یہ دعا مانگتے تھے کہ لوگ مرنے کے بعد بھی انہیں ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دعا مانگنے کی توفیق اور سلیقہ عطا فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کے نبیﷺ کے ارشادات کا مفہوم ہے ”دعا عبادت ہی ہے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ”مجھ سے دعا مانگا کرو۔ میں تمہاری دعا قبول کروں گا“۔ ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے ”جب رات کاآخیر تیسرا حصہ رہ جاتا ہے، اللہ تعالیٰ پہلے آسمان پر اُترکر فرماتا ہے کون مجھ سے دعا کرتا ہے؟ میں اُس کی دعا قبول کرتاہوں“۔ اللہ تعالیٰ کے پاک پیغمبرﷺ نے سجدے کی حالت میں زیادہ دعائیں مانگنے کی تلقین کی ہے۔ ایسی زندگی گزارنی چاہیے کہ لوگ زندگی بھر دعائیں دیں اور مرنے کے بعد بھی دعاؤں میں یاد رکھیں:۔
کوئی تو پھول کھلائے دعا کے لہجے میں
عجب طرح کی گھٹن ہے ہوا کے لہجے میں