مصنف: مدثر سعید
وکلاء کے عدالت عالیہ سے رجوع کے چار ماہ بعد بھی صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے پرنسپل سیکریٹری محمد خان بھٹی کو عہدے سے نہیں ہٹایا ہے۔ پہلے، اس سال اگست 2022ء میں درخواست گزار میاں داؤد (جوکہ وکیل ہیں) نے لاہور ہائی کورٹ میں محمد خان بھٹی کی بطور پرنسپل سیکریٹری تعیناتی کو چیلنج کیا تھا اور عدالت عالیہ سے درخواست کی تھی کہ محمد خان بھٹی کی تعیناتی کو کالعدام قرار دیا جائے۔ درخواست گزار نے اپنی عدالتی درخواست میں مزید کہا تھا کہ درخواست گزار کے پاس معزز عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہا۔
اس سے پہلے جیسے ہی جولائی 2022ء میں سپریم کورٹ نے پرویز الٰہی کو قائدا یوان اور وزیراعلیٰ بنانے کی توثیق کی تو فوراً وزیراعلیٰ پنجاب نے محمد خان بھٹی کو پرنسپل سیکریٹری تعینات کردیا۔ جس عجلت اور ترجیح کے ساتھ یہ تعیناتی ہوئی، اس سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ محمد خان بھٹی پرویزالٰہی کے دست راست ہیں۔ اور یوں پرویز الٰہی نے اپنے دورِ حکومت کا آغاز اقربا پروری، سفارش اور غیر شفافیت سے کیا۔قانونی طور پر پرنسپل سیکریٹری برائے وزیراعلیٰ کی پوسٹ صوبائی محکمے ایس اینڈ جی اے ڈی کی پوسٹ ہے اور یہاں پر تعیناتی صرف ایس اینڈ جی اے ڈی کے کیڈر افسر کی ہی ہوسکتی ہے۔ کسی دوسرے کیڈر کے افسر کی تعیناتی غیرقانونی اور غیر آئینی ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ نے ایکس کیڈر اور ڈیپوٹیشن کو غیر قانونی قراردیا ہوا ہے۔
کہانی یوں شروع ہوتی ہے کہ 1997ء میں محمد خان بھٹی نے پنجاب اسمبلی سے گریڈ سات سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ اس بات پر کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ 1997ء میں چوہدری پرویز الٰہی ہی پنجاب اسمبلی کے سپیکر تھے۔لیکن یہ صرف آغاز تھا۔ عروج ابھی باقی تھا۔ کچھ ہی سالوں میں محمد خان بھٹی گریڈ انیس (19)میں ترقی پاگئے۔ گوکہ گریڈ19بھی کافی نہیں تھا اس لیے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وقت کے ساتھ ان کی گریڈ 22میں ترقی کروائی گئی۔ پنجاب اسمبلی کا گریڈ22بھی موزوں نہیں تھا اس لیے صوبائی محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کی گریڈ بیس(20)کی پوسٹ پر انہیں خاص طور پر پرنسپل سیکرٹری برائے وزیر اعلیٰ پنجاب تعینات کیا گیا۔
محمد خان بھٹی کی تعیناتی اس دلیل کی مظہر ہے کہ پنجاب حکومت میں تعیناتی کا معیار کیا ہے؟ اس سے بڑھ کر حوصلہ شکنی کی بات کیا ہوگی کہ یہ تعیناتی صوبے کے اصل حکمران عمران خان کی نگرانی میں ہوئی ہے۔ اس تعیناتی کے بعد درجنوں تعیناتیاں ایسی ہوئی ہیں جس سے میرٹ اور شفافیت کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنرز اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز کی بے شمار تعیناتیاں قواعد و ضوابط سے ہٹ کر ہوئی ہیں اور یوں بہت سے گریڈ18کے افسران کو گریڈ19اور 20 کی ڈپٹی کمشنرز اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز کی پوسٹس پر تعینات کیا گیا ہے۔
میرٹ پر تعیناتیاں ہی گڈ گورننس اور سروس ڈیلور ی کو یقینی بناتی ہیں۔ آخر کب تک ہماری سیاسی پارٹیاں قواعد و ضوابط، شفافیت اور میرٹ کو نظرانداز کرتی رہیں گی؟
2 thoughts on “محمد خان بھٹی، بیوروکریسی اور شفافیت”
میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر پوسٹنگ کا فائدہ براہ راست ملک کو ہوتا ہے، دنیا بھر میں اگر کسی ملک نے ترقی کی ہے تو اس ملک کے سیاست دانوں نے میرٹ اور قابلیت کومدنظررکھ کر آفیسرز کو پوسٹنگ دی جس کا بالآخرفائدہ عوام کو ہوا
آج کل پنجاب میں ہر محکمے میں یہ ہی حال ہے