محکمہ تعلیم اور اساتذہ کے مسائل

[post-views]
[post-views]

تحریر: ڈاکٹر محمد کلیم

علم سے محبت کرنا اور اس کی بہتری کے لیے کام کرنا ہمارے ملک میں گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ اس بات کا تھوڑا بہت ادراک ہم کو پہلے بھی تھا لیکن اس پر تصدیق کی مہر محکمہ تعلیم میں تعیناتی کے دوران لگی۔ جب لوگ ہم کو آ کر کہتے محکمہ تعلیم آرمی کے بعد دوسرا بڑا ادارہ ہے اور یہ بحر الکاہل ہے جب کہ ہم کو ’بحر الجاہل‘ سنائی دیتا۔ ہم ایک جذباتی اور حساس بندے ہیں اس لیے ہم نے فوراً ہی محکمہ تعلیم کی بہتری کے لیے منصوبے شروع کیے کہ ہم اپنی دانست میں اس کو کیسے بہتر منظم کر سکتے ہیں مگر ”بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے“۔

جام صاحب نے ہم کو بارہا سمجھایا بیٹا اس ملک میں ”تبدیلی“ لفظ کو بہت پسند کیا جاتا ہے لیکن تبدیلی سے بہت نفرت کی جاتی ہے۔ محکمہ تعلیم کو بھی ہم نے ایسا ہی پایا۔ محکمہ تعلیم میں تعلیم کے علاوہ ہر شے پر غور و فکر کیا جاتا ہے اور مرکزی نقطہ جس پر کام کیا جاتا ہے وہ ہے ”تبادلہ جات“ ۔ اساتذہ کی تمام یونین بھی تبادلوں کی فرمائش لے کر آتی ہیں، استاد اور استانی کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو ان کے گھر میں تعینات کیا جائے اور محکمہ بھی یہی چاہتا ہے کہ تبادلہ کرنے کی طاقت صرف سیکریٹریٹ میں ہو کیوں کہ نچلے درجوں یا دفاتر میں بہت زیادہ ”مال پانی“ بنایا جاتا ہے۔ اس شے پر قابض ہونے کے لیے ایس آئی ایس نامی سافٹ ویئر تیار کیا گیا ہے جس کو ایس آئی ایس کے نام سے نہیں ”ساس“ کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ہر ٹیکنالوجی کی شمولیت سہولت دینے کی بجائے زحمت بنتا ہے اور اب گریڈ 14، 15، 16 کے اساتذہ کو بھی پورے پنجاب سے تبادلے کے لیے لاہور کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔

کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا، ہم نے محکمہ تعلیم میں جتنی قومیں، ذاتیں دیکھی ہیں اتنی کہیں بھی نہیں ہیں۔ کچھ کنٹریکٹ پر استاد ہیں ان کے نام اور ہیں کچھ ”پکے“ مستقل ہیں ان کے اور ہیں، کچھ پرائمری اسکول اساتذہ ہیں، کچھ مڈل اسکول اساتذہ ہیں، کچھ سیکنڈری اسکول اساتذہ ہیں اور کچھ ہائر سیکنڈری اساتذہ ہیں۔ ان کے مختلف درجہ جات ہیں اور مفادات بھی مختلف ہیں۔ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ صرف اس کے مفادات کو تحفظ ملے۔

Don’t forget to Subscribe our channel & Press Bell Icon.

اس وقت ہائر سیکنڈری اسکول ٹیچر کا محکمہ پر قبضہ ہے کیوں کہ وہ گریڈ 17 میں بھرتی ہوتے ہیں اور پڑھانے کے علاوہ باقی سارے کام کرتے ہیں۔ زیادہ تر انتظامی عہدوں پر یہی لوگ تعینات ہیں اور محکمہ تعلیم کے برہمن کہلاتے ہیں۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ ہائر سیکنڈری حصہ بالکل کام نہیں کر رہا کیوں کہ زیادہ تر طالب علم ایف اے ایف ایس سی میں کالج جانا پسند کرتے ہیں نہ کہ اسکول میں آنا، اس لیے مکھیاں مارنا ایک مستقل کام بن کر محکمہ تعلیم میں ابھرا ہے۔ پھر اس محکمہ میں اے ای او نامی اور ہیڈ ماسٹر نامی مخلوق بھی موجود ہے۔ ا ے ای او سے اکثر لوگ نفرت کرتے ہیں کیوں کہ ان کو 25000 /۔ الاؤنس دیا جاتا ہے جو کہ انسپکشن الاؤنس کہلاتا ہے۔ اس انسپکشن الاؤنس کو سب خوں خوار نظروں سے دیکھتے ہیں اور ڈی ای اوز، ڈی اوز اور سی ای اوز اس میں اپنا حصہ لینا نہیں بھولتے۔

الاؤنس کی دوڑ لگی ہے۔ ہر استاد کی قسم، ماڈل چاہتا ہے کہ اس کا الاؤنس لگایا جائے۔ کبھی وزیر اعلیٰ وظیفہ دیا جاتا ہے، کبھی کوئی الاؤنس اور کبھی کوئی الاؤنس دیا جاتا ہے۔ ایک دفعہ ایک میٹنگ ہو رہی تھی جس میں ہیڈ ٹیچر الاؤنس کی بات کی جا رہی تھی جب بات طے ہونے لگی تو ایک اساتذہ کی تنظیم والے بولے کہ اگر کوئی الاؤنس ہونا چاہیے تو وہ ٹیچنگ الاؤنس ہونا چاہیے۔

ایک بات سچ ہے کہ ہمارے محترم اساتذہ کرام سارے کام کرتے ہیں، الیکشن کی ڈیوٹی، مردم شماری، پولیو کی ڈیوٹی اور خوش حالی سروے وغیرہ وغیرہ لیکن یہ بھی سچ ہے وہ پڑھانے کا کام نہیں کرتے جس کے لیے ان کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ شاید اس شے کا ادراک حکام بالا کو ہوتا ہے اس لیے ”ویہلے بندوں“ کے ذمہ کچھ کام لگا دیا جاتا ہے اور اس کے لیے علیحدہ سے پیسے بھی دیے جاتے ہیں اور استاد خوشی خوشی یہ کام انجام دیتے ہیں اور بعد میں بہانہ بناتے ہیں کہ ہمارے نتائج اس لیے برے ہوتے ہیں کہ ہم کو ہمارا کام نہیں کرنے دیا جاتا ہے۔

آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔     

تعلیم کا مقصد نئی نسل کو اصول و ضوابط کے بارے میں آگاہ کرنا، ان کی اہمیت و افادیت اجاگر کرانا ہوتا ہے لیکن اساتذہ سے ہم کلام ہونے کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ کسی اصول و ضوابط کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے انکار ہیں :۔

 ہم سالانہ کارکردگی کی رپورٹ جمع نہیں کرائیں گے، ہم پر یہ اصول لاگو نہیں ہوتا۔

 بی ایڈ کیے بغیر ہم کو مستقل کیا جائے حالاں کہ بی ایڈ کی شرط لازم ہے۔

ہم پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان نہیں دیں گے کیوں کہ ہم اتنے پڑھے لکھے ہیں کہ کمیشن ہمارا امتحان لینے کے قابل نہیں۔ اس لیے ہم کو امتحان کے بغیر کیا پکا جائے۔

ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے

سال میں جتنے دن ہوتے ہیں اس سے زائد مرتبہ اساتذہ کی تنظیمیں ہڑتال، جلوس اور دھرنا کا اعلان کرتی ہیں۔ پہلے پہل جب ہم اسکول ایجوکیشن میں تعینات ہوئے تو یہ وتیرے دیکھ کر پریشان ہو گئے مگر بعد میں جب یہ روز مرہ بنا تو ہم نے بھی پریشان ہونا چھوڑ دیا۔

گزشتہ برسوں میں ورلڈ بینک کی مدد سے پی ایم آئی یو کا ادارہ بنایا گیا ہے جس کا کام جانچ و پڑتال کرنا ہے اور ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے۔ اس کی وجہ سے ہر دن نیا ڈیٹا اکٹھا ہوتا رہتا ہے کیوں کہ ہر ضلع میں ایک جانچ و پڑتال افسر (ڈی ایم او) تعینات ہے اور اس کے پاس ایک پوری ٹیم ہے جو اسکول کا معائنہ کرنے جاتی ہے۔ اس کا ایک فائدہ تو ہوا کہ اسکول سے غیر حاضری، گھوسٹ اسکول کا خاتمہ ہو گیا ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈیٹا میں ابھی بہت سی خامیاں موجود ہیں لیکن پھر بھی نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ ہم نے محکمہ تعلیم کی کئی میٹنگز میں شمولیت کی ہے لیکن تعلیم کی بہتری کے علاوہ تمام امور زیر بحث آئے۔ امید واثق ہے کہ محکمہ اپنی ڈگر پر قائم رہے گا اور بہترین نتائج پیدا کرتا رہے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos