وزیر اعظم شہازشریف نے مزید 7 معاونین خصوصی تعینات کر دیے ہیں جس کے بعد کابینہ کی تعداد بڑھ کر 85 تک پہنچ گئی ہے پاکستانی حکام اس وقت آئی ایم ایف کے ساتھ مشکل ترین مذاکرات کر رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی جانب سے اخراجات کم کرنے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے، مگر وزیر اعظم نے اپنے ہی اعلان کردہ کفایت شعاری اقدامات کو پس پشت ڈال کر مزید سات معاونین خصوصی کو تعینات کیا ہے۔ وزیر اعظم کی اپنی قائم کردہ کفایت شعاری کمیٹی نے بھی کابینہ کی تعداد کم کر نے کی سفارش کر رکھی ہے۔ ان نئے معاونین میں کوئی ایک بھی ایسا ماہر نہیں جس کے بغیر حکومت کا کوئی کام اٹکا ہوا ہو، یہ سراسر سیاسی رشوت ہے اور کچھ نہیں۔ نہ صرف یہ کہ انہیں کوئی محکمہ نہیں دیا گیا بلکہ اس سے پہلے بھی کم از کم 34 ارکان کا بینہ کے پاس کرنے کو کوئی کام موجود نہیں ہے۔
معاملہ سمجھ سے باہر ہے کہ ایسے وقت میں جب ملک میں ایک ایک روپیہ بچانے کی ضرورت ہے اور وزیر اعظم خود کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرا ئط نا قابل برداشت ہیں تو ایسے میں کابینہ کی تعداد میں بھی اندھا دھند اضافہ کس مجبوری کے تحت کیا جارہا ہے ؟ وزیر اعظم کا یہ فیصلہ عوام کی بے بسی کا مذاق اڑانے اور انہیں یہ باور کروانے کے سوا کوئی معنی نہیں رکھتا کہ حکمرانوں کو عوام کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ اس سسکتی ہوئی معیشت اور روٹی کے ایک ایک لقمے کے لیے پریشان عام آدمی کی مصیبت کے دوران بھی اپنی عیاشیوں کو کم کرنا تو رہا ایک طرف اس میں مزید اضافے سے بھی باز نہیں آسکتے ۔ حکومت کو یادرکھنا چاہیے کہ عوام کی حالت اور ملی معیشت پر بوجھ لادنے سے صرف عوام ہی نہیں ان کی اپنی سیاست اور مقبولیت بھی تباہی سے دو چار ہے۔