اقبال کی شاعری تصوّرات کی شاعری ہے۔ لیکن جو صفت تصوّرات کو شاعری بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اقبال تشبیہوں، استعاروں اور مخصوص علامتوں کے ذریعہ اپنے افکار کو مخصوص شکل میں پیش کرتے ہیں جس کا تقاضہ ہے کہ افکار کے حسّی متبادل تلاش کئے جائیں تا کہ افکار کو جذبہ کی سطح پر لایا جا سکے اور فکر محض خشک فکر نہ رہ کر اک حسّی اور ذہنی تجربہ بن جائے اور اک مخصوص نوعیت کے ادراک کی شکل اختیار کر لے۔ یہی بات کم و بیش علامتوں کے انتخاب میں بھی سامنے آتی ہے۔
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
مروت حسن عالم گیر ہے مردان غازی کا
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
بہت مدت کے نخچیروں کا انداز نگہ بدلا
کہ میں نے فاش کر ڈالا طریقہ شاہبازی کا
قلندر جز دو حرف لا الٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
حدیث بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو
نہ کر خاراشگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا
کہاں سے تو نے اے اقبالؔ سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا