Premium Content

Add

پاکستان میں جسم فروشی میں اضافہ شرم کا باعث ہے

Print Friendly, PDF & Email

یہ اب سماجی طور پر ممنوع نہیں ہے۔ برائی کثرت سے پھیل چکی ہے۔ سماجی و ثقافتی اعتبار سےیہ گفتگو منع ہے۔ ہمارا معاشرہ  بہت ساری چھپی ہوئی  برائیوں سے بھرا پڑا ہے جن کا قلع قمع نہیں ہو رہا۔ معاشرے کی  شفافیت اور اصلاح کے لیےایسی برائیوں  کا جائزہ لینا ناگزیر ہے۔ بڑھتی ہوئی عصمت فروشی ہمارے معاشرے کی خفیہ شرمندگی ہے۔ اس کی  توثیق، تحلیل اور خاتمے کی ضرورت ہے۔ یہ شرمندگی معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو جھنجوڑتی ہے۔ اسے حل کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ تسکین کی۔ متعدد محرکات کی وجہ سے یہ  اخلاقی خرابی پھوٹ گئی ہے۔

شریک حیات کے علاوہ  کسی ایسے شخص کے ساتھ جہاں سےفوری طور پر پیسے یا دیگر قیمتی اشیاء کے بدلے میں جنسی تعلق استوار کیا جائے جسم فروشی کہلاتا ہے۔ جسم فروشی میں مرد بھی ملوث  ہو سکتا ہے  اور عورت بھی ملوث  ہو سکتی ہے ۔  اس کے علاوہ مخنث ، ہم جنس پرست  یا ہم جنس پرستانہ سرگرمیاں بھی اس میں شامل ہوتی ہیں۔ لیکن تاریخی طور پر زیادہ تر طوائف خواتین رہی ہیں اور زیادہ تر گاہک مرد  رہے ہیں۔ تاہم، اس میں اب خواتین، مرد اور بچے سب شامل ہو چکے ہیں۔

Read More: https://republicpolicy.com/resolutions-for-the-international-day-for-the-elimination-of-violence-against-women/

جسم فروشی کے تصورات ثقافتی طور پر طے شدہ اقدار پر مبنی ہیں جو معاشروں کے درمیان مختلف ہیں۔ کچھ ثقافتوں میں، طوائفوں کو ایک تسلیم شدہ پیشے کے ارکان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ کچھ میں انہیں برا سمجھا گیا  او راس بنا پر انہیں قتل ، سنگسار، قید اور موت  جیسی سزائیں بھی دی گئیں۔

جنس ایک جبلت ہے۔قدرت کی طرف سے یہ جذبہ شریک حیات کی حدتک منع نہیں ہے کیونکہ یہ ایک فطری ضرورت ہے۔ تمام ثقافتیں اور مذاہب اس خواہش کو کنٹرول  کرنے کے لیے اقدامات کرتی ہیں۔ پھر، بہتی ہوئی ضرورت  حکومت کی قائم  کردہ رکاوٹوں کو عبور کرتی ہے۔ تہذیبوں نے بیک وقت مذہبی عبادت گاہیں اور کوٹھے گاہیں قائم کیں۔ انسانی ہوس حکومتوں کی اعاد کردہ حد سے بالاتر ہے۔ اس  وجہ سے انسانوں  نے کوٹھے قائم کیے اور جسم فروشی کو فروغ دیا۔ جسم فروشی ایک جنسی جذبہ نہیں رہی۔ یہ طاقت، خواہش، حیثیت اور اشرافیہ کی علامت ہے۔ تمام تہذیبوں میں یہ پیشہ منظم اور طوائف خاندانوں تک محدود رہا۔ تاہم، کام کئی گنا بڑھ گیا اور 20 ویں صدی میں ایک صنعت بن گیا۔ اب بہت سے ممالک میں یہ ایک پیشہ ہے۔تاہم، بہت سے ممالک میں یہ غیر قانونی ہے اور سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔

ہندوستان میں عصمت فروشی اشرافیہ کے لیے مخصوص رہی۔ یہ محض ایک جنسی رجحان نہیں تھا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تھا۔ اس میں موسیقی، کھیل اور جمالیات کی زینت تھی۔ تاہم، ثقافت کے مسلم حصے میں، یہ ناقابل قبول تھا،مسلم اشرافیہ جسم فروشی کی ہوس میں مبتلا رہی۔ ہندوستان تقسیم ہوا، لیکن ثقافت نہیں۔ معاشرہ جسم فروشی کی میراث پر قائم رہا۔ یہ سختی سے کوٹھے کی جگہوں اور منسلک خاندانوں تک محدود تھا۔ ضیاء حکومت نے انہیں علاقوں میں منتشر کر دیا۔ اس نے جسم فروشی کی ثقافت کو تبدیل کر دیا اور ایک اشرافیہ کی تفریحی سرگرمی بن گئی۔ یہ دھیرے دھیرے لیکن یقینی طور پر خصوصی حیثیت کی جعلی مغربیت سے منسلک تھا اور پارٹی کلچر کا حصہ بن گیا۔ اس کے بعد، یہ عام افراد میں پہنچ گیا ، شہروں اور نواحی علاقوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ اب، یہ سب عام ہو چکا ہے  اور معاشرے کے اخلاقی ضمیر کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔

Read More: https://republicpolicy.com/international-human-rights-day-and-human-rights-crises-in-pakistan/

پاکستان میں جسم فروشی کے بڑھنے میں متعدد عوامل کارفرما ہیں۔ وہ عوامل جن کی وجہ سے عورت جسم فروشی کے میدان میں داخل ہوتی ہے وہ  یا تو رضاکارانہ طور پرہو تی ہے  یاپھر زبردستی۔  رضاکارانہ شروعات میں وہ لوگ شامل ہیں جو معاشی بحرانوں، خاندانی دباؤ وغیرہ کی وجہ سے یہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف زبردستی طور پر  وہ لوگ شامل ہیں جو   اغوا اور اسمگلنگ کے نتیجے میں اس جنسی  صنعت میں داخل ہوتے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ کمزور معاشی حالات جسم فروشی میں ملوث ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہوتے ہیں، کیونکہ یہ غربت کے حالات میں کسی خاص شے کے حصول میں مدد کرتا ہے۔  کمزور معاشی حالات  کی وجوہات میں بچوں اور خاندان کی کفالت کرنا، کرایہ ادا کرنا، یا منشیات کے عادی افراد کا  شامل ہونا ہے۔  اس سے قطع نظر کہ یہ کیسے ہوتا ہے، جسم فروشی خواتین کو ایسی اشیاء فراہم کرتی ہے جو قابل برداشت نہیں ہوتیں۔ لہٰذا، بڑھتی ہوئی عصمت فروشی کی بنیادی وجہ معاشی عنصر ہے۔

تیسری وجہ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ تعلیم کی کمی اس پیشے کے پھیلاؤ کو کس طرح متاثر کرتی ہے۔ ادب سے پتہ چلتا ہے کہ قابلیت کی کمی ملازمت کے دوسرے ذرائع تلاش کرنے کے امکانات کو کم کرکے جنسی کام کو اپنانے کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ طوائفوں میں سے 39% کے پاس کوئی رسمی قابلیت نہیں تھی۔ اگرچہ اس سے آمدنی کا مرکزی ذریعہ تلاش کرنے کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے ، لیکن جنسی کام کی قیمتیں طوائف کی تعلیمی سطح کے مطابق ادا کی جاتی ہیں۔ نفسیاتی عوامل کے دائرے میں آتے ہوئے، بچپن کے دوران تکلیف دہ تجربات (خاص طور پر جنسی زیادتی) زندگی بھر ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ نفسیاتی مسائل سماجی تعلقات، روزگار، اور یہاں تک کہ روزمرہ کے مسائل سے نمٹنے میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ یہ سب مل کر سماجی اخراج کا باعث بنتے ہیں، اس طرح جنسی کام میں شامل ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ 72% طوائفوں نے بچپن میں زبانی، جنسی اور جسمانی زیادتی کے واقعات کا اعتراف کیا ہے۔ تشدد کے یہ شدید تجربات غیرمعمولی جذبات کو جنم دیتے ہیں، جو جسم فروشی میں داخل ہونے کے لیے ان کی سوچ کو شروع کر سکتے ہیں۔

سماجی عوامل کی چھتری کے نیچے، خاندانی تعاون کی کمی (مالی اور جذباتی دونوں) جسم فروشی کے ایک عامل کے طور پر ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بوڑھے والدین سے متعلق انتہائی غربت، بچوں کی تعلیم کا خرچ، کمانے والے مرد کی غیر موجودگی، رہائش خریدنا، بیٹیوں کی شادیاں عام طور پر جسم فروشی میں داخل ہونے کی خاندانی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، گھر کے نہ ہونے  کو سب سے اہم عنصر کے طور پربتایا گیا ہے جو سڑک پر جنسی کام میں مشغولیت کا باعث بنتا ہے۔ اس مصروفیت کی نوعیت کو اکثر بقا کے جنسی تعلقات کے طور پر دکھایا جاتا ہے، جس میں خواتین خوراک اور پناہ گاہ کے لیے جسم فروشی کو آخری حربے کے طور پر اختیار کرتی ہیں۔ ایک تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جو لڑکیاں گھر میں تشدد اور نظر اندازی سمیت کسی بھی بنیادی وجہ سے اپنا گھر چھوڑ کر چلی گئیں، انہیں اسٹریٹ ہڈ سمجھا جاتا تھا۔ انہیں اپنی  بنیادی ضروریات پوری کرنی ہوتی ہیں ، جنہیں وہ کسی بھی طرح سےپوری  کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں گلیوں میں جسم فروشی ہوتی ہے۔ جو لڑکیاں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں وہ اکثر کوٹھوں میں پائی جاتی ہیں۔

Read More: https://republicpolicy.com/aids-is-the-new-challenge-to-pakistan-what-resolutions-we-require-on-aids-day/

جسم فروشی میں منشیات کے استعمال کو بھی ایک لازمی عنصر کے طور پر رپورٹ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 64 فیصد لڑکیاں منشیات سے متاثرہ ہیں۔ایسا اس لیے بھی ہے  کہ اُنہیں منشیات خریدنے کے لیے صرف رقم درکار نہیں ہوتی بلکہ  بے بسی، نا اہلی اور بدسلوکی بھی وجہ ہے۔ آخر میں، انسانی اسمگلنگ بھی جسم فروشی میں لانے کے لیے ایک گاڑی کے طور پر سمجھا جاتاہے ۔ اس عمل میں جبر، تشدد یا دھمکی کے ذریعے لوگوں  کو جسم فروشی میں شامل کیا جاتا ہے ۔ اکثر غریب، کمزور یا پسماندہ آبادیوں سے  جسم فروشی کے عمل میں خواتین کو شامل کیا جاتا ہے۔

Read More: https://republicpolicy.com/do-you-know-your-fundamental-rights/

پھر، اور بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ تاہم، شکاری ہر جگہ ہیں. یہ پیسے کمانے والی صنعت بن چکی ہے۔ اس برائی  میں صرف عورتیں یا بچے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ یہ ریاست اور معاشرے کی اجتماعی ناکامی ہے۔ پاکستان میں جسم فروشی غیر قانونی ہے۔ اس لیے طوائفوں کے حقوق کی ضمانت نہیں ہے، چاہے آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست اور معاشرہ عصمت فروشی کے پیشے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ یہ انتظامیہ، قانون  نافذ کرنے والے اداروں ، پولیس اور انصاف  دینے والے اداروں کی ناکامی ہے۔ وہ ہمارے معاشرے میں شکاریوں کو حوا کی بیٹیوں کا شکار کرنے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں؟ اگر غربت معصوم خواتین کو جسم فروشی پر مجبور کرتی ہے تو یہ قومی جرم ہے۔ اگر نفسیاتی زیادتی خواتین کو جسم فروشی میں ملوث کرتی ہے تو یہ معاشرے کی ناکامی ہے۔ اگر جرائم پیشہ خواتین کو معاشرے سے نکال کر اس پیشے کی طرف لے جا رہے ہیں تو یہ انتظامیہ اور پولیس کی ناکامی ہے۔ کوئی  بھی وجہ خواتین کو جسم فروشی کے کام میں آنے کی اجازت دےتو  یہ ہماری ریاست اور معاشرے کی ناکامی ہے۔

عصمت فروشی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے  کہ  اس کام میں  پہلے سے موجود لوگوں کی بحالی پرکام کیا جائے۔ ریاست اور معاشرے کو آگاہی مہم کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے جس میں بدسلوکی اور اسمگلنگ کے مسائل پر زور دیا جائے تاکہ احتیاط کی جائے۔ خواتین اور تمام مجبور افراد کی بحالی کے پروگرام ہونے چاہئیں۔ ریاست اور معاشرے کو اس بات پر زور دینا چاہیے کہ طوائفوں کو غیر اخلاقی یا مجرم کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ اس کے بجائے، حقیقی مجرموں  جو  بدسلوکی ، استحصال اور اسمگلنگ میں ملوث ہیں کو سزائیں دلوانے کےلیے مضبوط پالیسیاں اور قوانین وضع کیے جانے چاہئیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1