تحریر : فاروق صادق
پاکستانی معیشت کاروں کی بنیادی غلطی دیہاتوں کی زرعی معیشت کو جدید طرز پر استوار کرنے کی بجائے درآمد شدہ مختلف معاشی نظاموں کو پاکستان پر مسلط کرنا ہے۔
صنعت و حرفت و کنسٹرکشن اور ہاؤسنگ سیکٹرز کی اہمیت اپنی جگہ ہے مگر زراعت کو نظر انداز کر کے معیشت استوار نہیں کی جا سکتی۔ پاکستانی معیشت اس حد تک کمزور ہو چکی ہے کہ پاکستانی دیہاتوں کی بنیادی معیشت زراعت اور لائیو سٹاک کا بھی بیڑہ غرق ہو گیا ہے۔ دیہات ہماری آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں اور دیہاتی معیشت کی بحالی سولہ کروڑ لوگوں کی بحالی ہے۔ کیا بھلا زراعت اور لائیو سٹاک کی ترقی کے بغیر پچیس کروڑ لوگوں کو غذا کے تمام اجزاء مہیا کئے جا سکتے ہیں؟
زراعت اور اس سے متعلقہ کاروبار پاکستانی معیشت کا آخری سہارا ہیں۔ معیشت جتنی بھی کمزور ہو ، اگر زراعت اور متعلقہ کاروبار چل رہے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ زندگی کی بنیادی ضرورت ” غذا” مل رہی ہے۔ ناقدین کے ہاں پاکستان میں سماجی اور معاشی تحریک نہ چلنے کی بنیادی وجہ ” غذا” کا ملنا ہے۔ اگر پاکستانی معیشت کی بنیاد ” زراعت” مندی کا شکار ہو جائے اور غذا کی فراہمی اور حصول مشکل سے مشکل ہوتا چلا جائے تو معاشرے میں بدنظمی پھیلنے کا خدشہ بڑھتا چلا جائے گا۔
دیہی علاقوں سے خبر آ رہی ہے کہ اس بار قربانی کے جانوروں اور خصوصاً بکروں کی خرید وفروخت میں انتہائی مندی کا رجحان ہے۔ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ دیہی معیشت میں لائیو سٹاک کا ایک انتہائی اہم کردار ہے۔ کسان سارا سال انتہائی مشقت، جانفشانی اور محبت کے ساتھ قربانی کے جانور پالتے ہیں۔ اس سے وہ اتنا سرمایہ کما لیتے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے خاندان کو پال سکتے ہیں بلکہ وہ اگلے سال کےلئے قربانی کے جانور پالنے کا بندوبست بھی کرتے ہیں اور یوں معیشت کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔
دوسری جانب ہمارے چمڑے کے کارخانے سب سے زیادہ چمڑا اس ہی موقع پر اکٹھا کرتے ہیں۔ اس چمڑے کو پراسیس کر کے اس کو ایکسپورٹ کرتے ہیں یا ان سے چمڑے کی مصنوعات جیسے کہ جوتے ، ہینڈ بیگ، لیدر جیکٹ اور گلوز وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔ قصور ، سیالکوٹ اور دیگر علاقوں کے کارخانے ان مصنوعات کو بیرون ملک بھیج کر زر مبادلہ کماتے ہیں ۔ اور اس وقت ہمارے ملک کو جس معاشی صورتحال کا سامنا ہے وہاں تمام ایسے شعبے جو زرمبادلہ کماتے ہیں ان کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔
اب اس موجودہ صورتحال کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کسان زیر بار ہو جائے گا اور وہ اگلے سال جانور نہ پال سکے گا۔ اگر وہ کسی طرح ہمت جٹا بھی لے تو منڈی کی غیر یقینی کی صورتحال اس کو یہ خطرہ مول نہ لینے دے گی۔ جس کے نتیجے میں اگلے سال قربانی کے جانور کم پالے جائیں گے اور ہمارے کارخانوں کو چمڑے کی سپلائی کم ہو گی اور ہماری چمڑے کی ایکسپورٹ گر جائے گی۔ اور ہم انتہائی ضروری زرمبادلہ سے محروم ہو جائیں گے۔
اس مندی کا ایک اہم سبب وہ ناقابل بیان مہنگائی ہے جس نے لوگوں کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ بہت سے لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں اور موجودہ مندی کی وجہ سے ان لوگوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ مزید براں، آنے والے دنوں میں، اس شعبہ میں تنزلی کے سبب، متعلقہ دیگر شعبہ جات کے لوگ بھی متاثر ہوں گے اور بہت سے کارخانے ڈا ٔون سائزنگ پر مجبور ہو جائیں گے ۔ پاکستانی معیشت کاروں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ دیہاتی معیشت صرف غذا اگانے کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں زرعی آلات ، سائنسی ریسرچ، ادویات، انجینئرنگ، پھل، اجناس ، ٹیکنالوجی، انڈسٹری غرضیکہ یہ سیکٹر باقی تمام سیکٹرز کا بنیادی جزو اور خام مال مہیا کرنیوالا بنیادی سیکٹر ہے۔

حکومت کو اس سیکٹر کو تباہی سے بچانے کےلئے ابھی سے اقدامات اٹھانے ہوں گے ورنہ اس صورتحال سے واپسی نا ممکن ہو جائے گی۔ پاکستانی معیشت کا آخری سہارا زراعت اور لائیو سٹاک ہے۔ اگر معیشت کی مندی کا اثر یہاں تک سرایت کر چکا ہے تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معیشت کی بدحالی کا نہج کہاں تک پہنچ چکا ہے؟ لکھاری فاروق صادق پیشے کے لحاظ سے سول سرونٹ ہیں۔