@pmscivilservant تحریر: طارق محمود اعوان
مصنف سول سرونٹ ہیں اور انتظامی وفاقیت کے نفاذ کے لیے کام کر رہے ہیں۔
’’ اے بنی نوع انسان! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘ (الحجرات:13) اسی طرح، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کا آرٹیکل 1 اعلان کرتا ہے کہ تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں اور وقار اور حقوق میں برابر ہیں۔ وہ عقل اور ضمیر کے حامل ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کے جذبے سے کام لینا چاہیے۔ بالکل اسی طرح پاکستان کے آئین کے بنیادی حقوق جو کہ آرٹیکل 8 سے 28 تک تحریر ہیں وہ بھی شہریوں کے وقار، مساوات اور آزادی کا تحفظ کرتے ہیں۔ لہٰذا، انسانی حقوق کے تمام ضابطے سرشتی اور فطری حقوق کے لحاظ سے مطلق عالمگیریت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے بعد، ثقافتی، مذہبی، اقتصادی اور سیاسی حقوق پر کافی ہم آہنگی ہے لیکن پھر بھی ریاستوں کے درمیان ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی مفادات کو جوڑنے کے لیے ایک بامعنی طریقہ کار کا فرق ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔
آئینی طور پر پاکستان ایک وفاقی پارلیمانی جمہوریت ہے۔ پاکستان کے آئین میں انسانی حقوق کو بنیادی حقوق کے طور پر محفوظ کیا گیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 8 کہتا ہے کہ بنیادی حقوق کے خلاف کوئی بھی قانون کالعدم قرار پائے گا۔ اس لیے یہ آئینی تحفظ، ریاست اور معاشرے کے لیے انسانی حقوق کی اہمیت کو ثابت کرتا ہے۔
آئین پاکستان کے مطابق بنیادی حقوق کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔
آرٹیکل 9 کسی شخص کی سلامتی کا تحفظ کرتا ہے۔ آرٹیکل 10 گرفتاری اور نظربندی کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ آرٹیکل 10 اے منصفانہ ٹرائل اور منصفانہ عمل کے حق کا تحفظ کرتا ہے۔ آرٹیکل 11 غلامی اور جبری مشقت سے منع کرتا ہے۔ آرٹیکل 12 سابقہ سزا کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 13 دہری سزا اور خود کو جرم سے بچاتا ہے۔ آرٹیکل 14 انسانی وقار پر مہر ثبت کرتا ہے اور ثبوت نکالنے کے مقصد کے لیے شہریوں پر تشدد سے منع کرتا ہے۔ آرٹیکل 15 نقل و حرکت کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 16 اجتماع کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 17 ایسوسی ایشن قائم کرنے کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 18 تجارت، کاروبار یا پیشے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ آرٹیکل 19 تقریر کی آزادی کا حق فراہم کرتا ہے اور آرٹیکل 19 اے معلومات کی رسائی کا حق فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 20 مذہبی آذادی اور مذہبی اداروں کو منظم کرنے کی آزادی کو یقینی بناتا ہے۔ آرٹیکل 21 کسی خاص مذہب کے مقاصد کے لیے ٹیکس لگانے کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 22 تعلیمی اداروں کو مذہب کے حوالے سے تحفظات فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 23 پاکستان کے کسی بھی حصے میں جائیداد کے حصول، انعقاد اور تصرف کا حق فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 24 جائیداد کے حقوق کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 25 اے تمام شہریوں کو قانون کے سامنے برابر ہونے کا پابند کرتا ہے۔ آرٹیکل 25 تعلیم کا بنیادی حق فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 26 اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ عوامی مقامات تک رسائی کے سلسلے میں کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ آرٹیکل 27 خدمات میں امتیازی سلوک کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 28 لوگوں کو زبان، رسم الخط اور ثقافت کو محفوظ رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
علاوہ ازیں، آئین کا دوسرا باب ریاستی پالیسی کے اصول وضع کرتا ہے۔ یہ اصول معاشرے کے اجتماعی سماجی و اقتصادی حقوق ہیں۔ آرٹیکل 31 وضاحت کرتا ہے کہ اسلامی طرز زندگی کو فروغ دیا جائے گا۔ آرٹیکل 32 مقامی حکومتوں کے اداروں کے فروغ کو ریاستی پالیسی قرار دیتا ہے۔ آرٹیکل 33 تعصب اور اسی طرح کے دیگر تعصبات کی حوصلہ شکنی کے لیے پالیسی کے اصول فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 34 قومی زندگی میں خواتین کی مکمل شرکت کو یقینی بناتا ہے۔ آرٹیکل 35 شادی اور خاندانی زندگی کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 36 اقلیتوں کو تحفظ اور بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 37 واضح طور پر سماجی انصاف کے فروغ اور سماجی برائیوں کے خاتمے کی ضمانت دیتا ہے۔ آرٹیکل 38 لوگوں کی سماجی اور معاشی بہبود کے فروغ کو نافذ کرتا ہے۔ آرٹیکل 39 مسلح افواج میں لوگوں کی شرکت کو مساوی طور پر یقینی بناتا ہے۔ آرٹیکل 40 مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے اور بین الاقوامی امن کو فروغ دینے کے لیے بنیادی اصول فراہم کرتا ہے۔ اس لیے بلاشبہ طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بنیادی حقوق اور ریاستی پالیسی کے اصول ہی انسانی حقوق کا بہترین مجموعہ ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنزلی کی بنیادی وجہ آگاہی کی کمی ہے۔ یہ کالم اسی تناظر میں لکھا گیا ہے کہ عام عوام بھی اپنے بنیادی حقوق سے آگاہ ہو سکیں۔ انسانی حقوق کے مندرجات اور اسباب سے آگاہی انسانی حقوق کے بہتر نفاذ کے لیے اہم ہے۔ علم کے خلا کو پر کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قوم کے بنیادی تعلیمی نصاب میں بنیادی حقوق کے ہمہ جہتی اصولوں کو شامل کیا جائے اور اس کے بعد مؤثر آگاہی مہمات چلائی جائیں تا کہ عام عوام کو انکے بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی ہو۔ مایوسی کے اندھیرے کو منور کرنے کے لیے سماجی، ثقافتی، سیاسی اور مذہبی بیداری کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ افراد، اداروں اور تنظیموں کو انسانی حقوق کی بنیادی حیثیت کو منوانے کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔
انسانی حقوق کی عملداری کا انتظامی طریقہ کار ہی آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہے۔ انتظامی طریقہ کار قابل، مستعد اور غیر متزلزل طور پر نفاذ کی بنیاد سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان انسانی صلاحیت کے بحران کا سامنا کر رہا ہے اور یہ عدم صلاحیت گورننس اور سروس ڈیلیوری کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ پاکستانی ریاست انسانی حقوق کے مقاصد کے لیے مضبوط آئین اور بہتر قانون سازی کی حمایت کی ضمانت دیتی ہے، لیکن انتظامی اور دوسری مشکلات کے سبب ہمیں انسانی حقوق کے نفاذ میں سنجیدہ مشکلات کا سامنا ہے۔
آئین پاکستان شہریوں کو انسانی حقوق کے نفاذ کے لیے عدالتی طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل (3) 184سپریم کورٹ کو عوامی مفاد کے معاملات پر عوامی حقوق کو نافذ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 199 ہائی کورٹس کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے سرکاری ملازمین کے فیصلوں کو بنیادی حقوق کی کسوٹی سے مسابقت کروائیں۔ ضابطہ فوجداری 1898 کے سیکشن 491 کا اطلاق یہ فراہم کرتا ہے کہ عدالت کے اپیلیٹ فوجداری دائرہ اختیار کی حدود میں کسی شخص کو عدالت کے سامنے لازمی لایا جائے تاکہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جا سکے۔ پھر، پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 220 کے تحت متعدد قانونی تحفظات کے ساتھ ایک بہتر طریقہ کار دستیاب ہے۔
ساختی طور پر، انسانی حقوق کا عدالتی نفاذ پوری دنیا میں طویل عرصے سے جاری ہے۔ لہٰذا، عدالتی نفاذ کے بنیادی کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ عدالتی اصلاحات سے عدالتی کردار دیوانی اور فوجداری نظام میں انسانی حقوق کی عملداری کو موثر کرنے میں معاون ہو گا۔ عدالتی طرز عمل اور طریقہ کار کی بہتری سے پاکستان میں انسانی حقوق کے نفاذ میں واضح طور پر بہتری آئے گی۔
تاہم انسانی حقوق کے نفاذ کے لیے انتظامیہ ( ایگزیکٹو) کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انتظامی طریقہ کار قابل، مستعد اور غیر متزلزل طور پر عملداری کی بنیاد سے جڑا ہوا ہے اور انتظامی شفافیت اور مستعدی انسانی حقوق کی عملداری کے لیے بہترین مشعل راہ ہو گی۔
پاکستان انسانی صلاحیت کے بحران کا سامنا کر رہا ہے اور اس عدم صلاحیت سے گورننس اور سروس ڈیلیوری کے مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہو رہا ہے۔
آئین پاکستان انسانی حقوق کے نفاظ کے لیے مضبوط آئینی اور قانون سازی کی حمایت کی ضمانت دیتا ہے، لیکن انتظامی رکاوٹوں کی وجہ سے انسانی حقوق کا نفاذ مستعد نہیں ہے۔ اٹھارویں ترمیم نے انسانی حقوق کا اختیار صوبوں کو منتقل کر دیا ہے۔ اس لیے صوبوں کو مضبوط اور فعال انسانی حقوق کے محکموں کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ، تحصیل و ضلع کی سطح تک انسانی حقوق کی عملداری کے لیے صوبائی محکمہ جات کو ایک فعال اور بنیادی ہیومن رائٹس سروس بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک صوبائی انسانی حقوق کے محکمہ جات مستعد اور فعال نہیں ہونگے اس وقت تک انسانی حقوق کی صورتحال بہتر نہیں ہو سکے گی۔ سرکاری اداروں کے ساتھ دوسرے معاشرتی اداروں کی صلاحیت کو بھی بڑھانے کے لیے کام کرنا ہو گا۔
انسانی حقوق کی صوبائی عملداری میں وفاق کی مداخلت غیر آئینی ہے۔ انسانی حقوق کے وفاقی اداروں کو صرف وفاقی متعلقہ امور تک محدود ہونا چاہیے۔ انسانی حقوق کے وفاقی اداروں کا صوبائی انسانی حقوق کے اداروں میں مداخلت غیر آئینی ہے اور اس طرح صوبائی محکمہ جات کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے جس سے انتظامی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ صوبوں کے محکمہ جات کو مضبوط کیے بغیر انسانی حقوق کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے۔
انتظامی صلاحیت اور فعالیت کو حاصل کرنے کے لیے عوامی تنظیموں کے ضابطہ اخلاق اور قانون میں ترمیم کی جانی چاہیے۔ پبلک اور پرائیویٹ پارٹنرشپ انسانی حقوق کی عملداری میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ تقریباً تمام وفاقی اور صوبائی محکمہ جات نے اپنے رولز آف بزنس میں انسانی حقوق کی عملداری کو شامل کیا ہے۔ اگر محکموں کی طرف سے صرف ان قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کروایا جائے تو انسانی حقوق کی عملداری میں نمایاں بہتری آئے گی۔
آخر میں انسانی حقوق کی ضمانت ریاستی ادارے ہی فراہم کرتے ہیں مگر انسانی حقوق کی عملداری کے لیے معاشرے اور ریاست کو یکجا ہو کر کام کرنا ہو گا۔ انسانی عظمت اس بات کی متقاضی ہے کہ انسانی حقوق پر عملداری کو ہر عام و خاص کے لیے یقینی بنایا جائے ۔ انسانی حقوق کو یقینی بنائے بغیر ایک انصاف پسند معاشرہ اور ریاست تشکیل نہیں دی جا سکتی ہے۔
1 thought on “پاکستان میں انسانی حقوق کا نفاذ”
اسلام علیکم محترم طارق اعوان صاحب
I am fond of your articles. I am copying this peice of knowledge. Allah Pak Bless you Sir!
آمین