میڈم! میری بچیاں آپ کے لیے دعائیں نہیں، بددعائیں کرتی ہیں

[post-views]
[post-views]


تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی


وہ آنکھوں میں اشک لیے آئی اور ہچکیاں لیتے واپس چلی گئی۔ بدن کانپ رہا تھا ، آواز لرز رہی تھی :- میری بیٹیاں آپ کے لیے بہت بد دعا کرتی ہیں، میں انہیں منع کرتی ہوں لیکن وہ پھر بھی دن رات بد دعائیں کر رہی ہیں۔ چند دن پہلے آپ میرے کمرے میں آئیں، میری میڈم! میری بچیاں آپ کے لیے دعائیں نہیں، بددعائیں کرتی ہیں بھی موجود تھیں، آپ نے پرواہ نہیں کی، مجھے نکما ،کاہل ،نالائق ، بیوقوف اور معلو م نہیں کیا کیا کہا ، آپ کو احساس تک نہیں ہوا لیکن میری بیٹیوں کی روح چھلنی ہو گئی۔آپ میری رفقائے کار کے سامنے مجھے ناجائز طعنے دیتی ہیں ، اپنی انا کی تسلی کے لیے میری روزانہ تذلیل کرتی ہیں ، میری خاموشی نے آپ کو اتنی ہمت دے دی کہ آپ بیٹیوں کے سامنے ان کی ماں کو ناجائز باتیں کرتی رہیں ، اب اللہ کی عدالت میں مقدمہ ہے، میرا دل نہیں کرتا ، میری بیٹیاں آپ کی اللہ کے حضور شکایت کریں لیکن مجھے لگتا ہے ، وہ اکیلی نہیں آپ سے تو کسی کی عزت محفوظ نہیں ۔ میرا صبر ہی میرا ہتھیار ہے لیکن آئندہ میری بچیوں کے سامنے کوئی بھی بات کرنے سے پہلے ضرور سوچیں ضرور”۔خاتون کچھ عرصہ قبل تبادلہ کروا کر تحصیل ہذا میں آئی تھی ۔ آبائی گھر ملحقہ ضلع میں تھا لیکن وہاں سیٹ خالی نہیں تھی۔ وہ دن گن رہی تھی کہ کب وہاں سیٹ خالی ہو اور وہ اپنے آبائی شہر جائے لیکن آزمائش کا عرصہ بڑھتا جا رہا تھا ۔ آزمائش کو ایک “محترمہ” نے عذاب بنا دیا تھا ۔ وہ “محترمہ” دفتری درجہ بندی کے مطابق فقط ایک درجہ اوپر تھیں مگر خود کو انتہائی بلند اور اپنے ماتحتوں کو انتہائی پست سمجھتی تھیں ، بولتی تھیں تو بولتی ہی رہتی تھیں ، جائز ، ناجائز سب کچھ کہتی تھیں ، ذاتی معاملات میں دخل دیتی تھیں ۔ “محترمہ” کے بھی افسران بالا تھے اور انتہائی اعلی تھے ۔ “محترمہ” کے ماتحت بھی ذمہ دار لوگ تھے مگر “محترمہ” خود کو وہ گاں سمجھتی تھیں جس نے دنیا بھر کا بوجھ اٹھایا ہوا تھا ،سب کو رلا یا ہوا تھا ، عجیب تماشا لگایا ہوا تھا ، ماتحت خواتین خاموش رہتی تھیں، کچھ نہ کہتی تھیں۔ انہیں غائبی امید تھی کہ کسی دن خاتون کو ہدایت نصیب ہو گی مگر انہیں وہ دن دیکھنا نصیب ہو گا یا نہیں یہ ایسا سوال تھا جس کا کسی کے پاس جواب نہیں تھا ۔ خاتون انتہائی با وقار تھی، اعلی نسل بلند کردار تھی ۔ ابھی خلع لیا تھا کیونکہ شوہر ظالم تھا ، بیٹیوں کی شادی اپنے نشئی بھانجے ، بھتیجوں سے کرنا چاہتا تھا ۔ یتیم خاتون نے اپنی جوانی تو بھائیوں کی عزت کی خاطر کسی نہ کسی طرح گزار لی تھی مگر وہ اپنی بیٹیوں کو اپنے ہاتھ سے جہنم میں جھونکنا نہیں چاہتی تھی ۔ خلع لیا ، تبادلہ کروایا ، عدالتی معاملات اور دیگر مسائل چل رہے تھے مگر وہ چٹان کی طرح مضبوط تھی ۔ محکمے والوں سے ہمیشہ سپورٹ ملی تھی لیکن اس شہر میں “محترمہ” کی بدولت ذہنی اور جسمانی صحت خطرے میں پڑ چکی تھی ۔ اسے آج تک کسی نے ایسے الفاظ نہیں کہے تھے جو “محترمہ” روز کہتی تھی اور سب کے سامنے کہتی تھی ۔ انتظامی اصولوں میں بنیادی اصول ہے کہ اپنے ماتحت کو کسی کے سامنے کبھی سست نہیں کہنا چاہیے ، تنبیہ ہمیشہ اکیلے میں کرنی چاہیے اور تعریف سب کے سامنے ۔محترمہ کا طرز عمل اس کے عین الٹ تھا ۔ وہ سب کے سامنے روزانہ کسی نہ کسی کی عزت کا جنازہ نکال دیتی تھی ۔ تعریف اپنے علاوہ کسی کی کرنا گناہ سمجھتی تھی ۔جوان مطلقہ خاتون کے ہر فعل میں سلیقہ تھا ،وقار تھا مگر تحصیل کی آفیسر کچھ بھی دیکھنے سے قاصر رہی کیونکہ اس کی آنکھوں پر افسری کی پٹی مضبوطی سے بندھی ہوئی تھی۔ دیبو کائناتی ، کائنا ت کے انتہائی اہم سوال اٹھاتی ہیں ، وہ اس قضیے کی بابت فرماتی ہیں :-” اگر کوئی صاحب یا “محترمہ” افسری کے بنیادی گریڈ میں ہی فرعون ثابت ہو تو اسے سوچنا چاہیے کہ وہ آگے جا کر کیا کرے گا؟ خدائی کا دعوی کرنے کا تو زمانہ نہیں رہا ، محکمے کیلیے بہتر ہے کہ ایسے محترم یا “محترمہ” کو اگلے گریڈ میں جانے کی زحمت نہ دی جائے بلکہ ان سے بنیادی گریڈ بھی واپس لے لیا جائے تو کئیوں کا بھلا ہو” ۔محترمہ اور محکمے ابھی دیبو کائناتی کے اعلی خیالات سے آگاہ نہیں ہیں لیکن “محترمہ” ہماری خاتون کے خیالات سے آگاہ ہوتے ہی دنگ رہ گئی ۔ خاتون تو چلی گئی مگر “محترمہ” کو سوچتا چھوڑ گئی ، “محترمہ” نے دو دن سوچا ، تیسرے دن سب سے معافی مانگی ۔ خاتون کے بچوں سے بھی معافی مانگی ، درخواست کی ، بد دعا نہ دی جائے ۔بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں ، انہوں نے سچے دل سے “محترمہ” کو معاف کر دیا ۔اپنی خطاؤں کی دنیا میں ہی معافی مانگ لینی چاہیے اگر معافی نہ مانگی جائے اور مہلت ملتی رہے تو انسان کو سوچنا چاہیے کہ مہلت تو شیطان کو بھی دی گئی ہے ۔ حقیقی آزادی منفی جذبات سے آزادی ہے ۔جو شخص اپنے نفس کی غلامی سے آزاد ہو گیا وہی حقیقی طور پر کامیاب ہوا۔ منفی جذبات انسانی زندگی سے حسن اور مسرت چھین لیتے ہیں ۔ انسان کا اذیت پسند ہونا شیطان کی پسندیدہ چال ہے۔تکبر کرنا ، لوگوں کو حقیر سمجھنا شیطانی افعال ہیں ۔ عہدے امتحان ہوتے ہیں، عزت اللہ کی دی ہوئی نعمت ہوتی ہے ، نعمت کی بے قدری کی جائے تو نہ صرف نعمت چھن جاتی ہے بلکہ آخرت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ کسی بھی مسلمان مرد اور عورت کو ہمیشہ یہ سوچنا چاہیے کہ اس کا رویہ اسلامی مزاج سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں ۔ اگر اپنے کسی ماتحت میں کوئی کمی یا خامی مشاہدے میں آئے تو ان کی اصلاح کرنی چاہیے ، نہ کہ ان کی عزت نفس سے کھیلنا چاہیے ۔ والدین کے سامنے اولاد سے اور اولاد کے سامنے والدین سے بد تمیزی کسی صورت نہیں کرنی چاہیے ۔ اہل دانش یقین رکھتے ہیں کہ ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک فرض ہے ، جنت میں داخلے کا سبب ہے ۔ اگر اونٹ کا مالک بھی اونٹ کو شکایت کا موقع دے تو روز قیامت جواب دینا پڑے گا، انسان تو پھر انسان ہے ۔ اللہ نے ہر انسان کو عزت بخشی ہے۔ کسی بھی انسان کی عزت نفس سے کھیلنا گناہ کبیرہ ہے ۔ آئیے ! آزادی کے مہینے میں خود کو منفی جذبات سے آزاد کریں ، لوگوں کے لیے رحمت بنیں ، اپنے ماتحتوں سے محبت کریں، اسلام کا ابدی اصول یاد رکھیں :-” رحم کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے”۔ خود پر رحم کریں ، اپنے ہم وطنوں پر رحم کریں ، بنیان مرصوص کا حصہ بنیں ، شیطان کی غلامی سے نجات پائیں ، معرکہ حق میں اپنا کردار نبھائیں ،وطن پر جا ں نثار کرنے والوں کو سراہیں ۔ دنیا میں کتنی قومیں ہیں جو اپنے ہم وطنوں پر جا ن نثار کرتی ہیں ، کتنے ہی ممالک ہیں جہاں کے باشندے باہمی تعاون کے حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں ۔ مسلمان خیر بانٹتا ہے۔مومن کی زبان سے کل جہان محفوظ رہتا ہے ۔ مومن کی زندگی اپنی اصلاح اور دوسرو ں کی فلاح کی فکر میں بسر ہوتی ہے ۔ اپنے ماتحتوں کا حق ادا کریں ۔ ا چھے انسان بنیں ، پیارا پاکستان بنیں، پاکستان زندہ باد ، پاکستان پائندہ باد۔

1 thought on “میڈم! میری بچیاں آپ کے لیے دعائیں نہیں، بددعائیں کرتی ہیں”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos