وزیرِاعظم کا دورۂ قطر اور سیلاب متاثرین: ترجیحات کا سوال

[post-views]
[post-views]

عروسہ عارف

پاکستان اس وقت ایک ایسے نازک مرحلے سے گزر رہا ہے جہاں قدرتی آفات، خاص طور پر سیلاب، لاکھوں افراد کی زندگیاں اجاڑ چکی ہیں۔ دیہات اور قصبے زیرِ آب آچکے ہیں، ہزاروں گھر تباہ ہو گئے ہیں، اور لاکھوں شہری کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں ملک کے وزیرِاعظم کا قطر کا دورہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات صحیح سمت میں ہیں؟ کیا ایسے وقت میں سفارتی دورے زیادہ اہم ہیں یا اپنے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنا اور عملی ریلیف فراہم کرنا؟

ویب سائٹ

پاکستان کی تاریخ میں سیلاب کوئی نئی بات نہیں، لیکن موجودہ صورتِ حال نے ایک بار پھر یہ حقیقت اجاگر کی ہے کہ ہم بطور ریاست اور معاشرہ ابھی تک ایسے سانحات سے مؤثر طور پر نمٹنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر پائے۔ ماہرین کے مطابق صرف گزشتہ دو دہائیوں میں سیلابوں نے پاکستان کی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ زراعت، جس پر ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کا روزگار منحصر ہے، سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ اس وقت بھی ہزاروں ایکڑ رقبہ کھڑی فصلوں کے ساتھ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔

یوٹیوب

وزیرِاعظم کا یہ کہنا درست ہو سکتا ہے کہ بیرونی دورے سفارتی اور معاشی تعلقات کے لیے اہم ہیں، لیکن بحران کے وقت ایک سیاسی رہنما کی اصل طاقت عوام کے درمیان کھڑے ہونے میں ہے۔ سیلاب زدگان کی داد رسی محض اعلانات یا امدادی پیکج سے نہیں ہوگی، بلکہ عملی موجودگی، مؤثر ریلیف آپریشن، اور ادارہ جاتی اصلاحات سے ہوگی۔ اگر ملک کا سربراہ ایسے وقت میں اپنے عوام کے بیچ نہ کھڑا ہو تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیادت کا اصل مقصد کیا ہے؟

ٹوئٹر

یہ بھی حقیقت ہے کہ قطر جیسے ممالک سے تعلقات پاکستان کے لیے معاشی طور پر اہم ہیں۔ توانائی، سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع کے لیے ایسے تعلقات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا چند دنوں کی تاخیر یا دورے کا نیا شیڈول اس قدر نقصان دہ ہوتا کہ اسے سیلاب متاثرین پر فوقیت دینا ضروری تھی؟ یہی وہ تضاد ہے جو عوام میں مایوسی پیدا کرتا ہے اور یہ تاثر مضبوط کرتا ہے کہ حکمرانوں کی ترجیحات عام شہریوں کی مشکلات نہیں بلکہ اپنی بین الاقوامی ساکھ ہے۔

فیس بک

سیلاب جیسے عالمی المیے سے اکیلا کوئی ملک نہیں نکل سکتا۔ پاکستان کو نہ صرف فوری ریلیف کے لیے بیرونی امداد اور تکنیکی تعاون درکار ہے بلکہ طویل المدت منصوبہ بندی بھی کرنی ہوگی۔ ڈیمز، واٹر مینجمنٹ، ندی نالوں کی صفائی اور شہری منصوبہ بندی کے بغیر ہر سال کی بارش ایک تباہی بن کر اترے گی۔ اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی رپورٹس بھی بارہا خبردار کر چکی ہیں کہ پاکستان کلائمیٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ اس لیے یہ مسئلہ وقتی نہیں بلکہ وجودی نوعیت کا ہے۔

ٹک ٹاک

یہاں اصل سوال قیادت کے وژن کا ہے۔ کیا ہماری سیاسی قیادت یہ سمجھ پائی ہے کہ ایسے بحران صرف وقتی امداد سے نہیں، بلکہ ادارہ جاتی اور پالیسی سطح کی تبدیلیوں سے حل ہوتے ہیں؟ محض خیمے اور راشن بیگ بانٹنے سے حالات بہتر نہیں ہوں گے جب تک آفات سے بچاؤ کے مستقل انتظامات نہ کیے جائیں۔

پاکستانی عوام یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ ان کے حکمران کب اپنی ترجیحات بدلیں گے۔ وزیرِاعظم کو قطر ضرور جانا چاہیے، لیکن پہلے انہیں اپنے گھر کو سنبھالنا ہوگا۔ ایک ذمہ دار قیادت وہ ہوتی ہے جو عالمی دنیا میں بھی باوقار ہو اور اپنے عوام کے دکھ درد میں بھی شریک ہو۔ اگر یہ توازن قائم نہ کیا گیا تو عوام اور ریاست کے درمیان خلیج مزید وسیع ہو جائے گی۔

انسٹاگرام

نتیجہ

وزیرِاعظم کا دورۂ قطر اپنی جگہ اہم سہی، مگر سیلاب متاثرین کے بیچ موجود ہونا زیادہ ضروری ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہماری قیادت وقتی سیاسی اور سفارتی ایجنڈے کو پسِ پشت ڈال کر اپنی عوام کی زندگیوں کو ترجیح دے۔ سوال یہی ہے کہ اگر حکمران اپنے عوام کے ساتھ نہیں تو پھر وہ کس کے ساتھ ہیں؟

ویب سائٹ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos