Premium Content

پنجاب کے الیکشن میں سیاسی جماعتوں کا قابل انتخاب کےبغیر کا سروے

Print Friendly, PDF & Email

مصنف: طاہر مقصود

مصنف پنجاب پولیس سے ریٹائرڈ ایس ایس پی ہیں اور ریپبلک پالیسی میں بطور چیف ایڈیٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

پاکستان میں قابل انتخاب کی سیاست کا آغاز 1985 کے الیکشن سے ہوا جب غیر جماعتی انتخابات ہوئے ۔ پاکستان کے مضبوط ترین جاگیردار، پیر، سرمایہ دار امیدواران کو الیکشن جتوایا گیا۔ اسکے بعد سے یہ قابل انتخاب  ہی ہمیشہ سیاسی جماعتوں کی کامیابی کی بنیاد رہے ہیں۔ یہاں تک کہ 2002 کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ق کے نام پر قابل انتخاب  کی کنگز پارٹی بنی اور یوں پنجاب ، بلوچستان اور سندھ سے قابل انتخاب جتوا لیے گئے ۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ قابل انتخاب  کے ساتھ سیاسی جماعتیں بھی اہم ہوتی چلی گئیں۔ اس طرح سیاسی جماعتوں اور قابل انتخاب کے امتزاج سے الیکشن جیتے گئے۔ کچھ اور وقت گزرا تو سیاسی جماعتیں اتنی مضبوط ہوئیں کہ قابل انتخاب کے بغیر ہی بہت سے حلقوں میں کامیاب ہونا شروع ہو گئیں۔ اور اب یہ حالات ہیں کہ پنجاب کے 297 حلقوں میں سے 200 سے زیادہ حلقوں  پر سیاسی جماعتوں کو سرے سے قابل انتخاب کی ضرورت ہی نہیں ہے اور وہ کسی بھی محنتی پارٹی ورکر امیدوار کو ٹکٹ دے کر الیکشن جیت سکتی ہیں۔ باقی ماندہ 97 دیہاتی حلقوں میں بھی قابل انتخاب کا اثر تیزی سے کم ہوا ہے اور اب بڑی مشکل سے دو درجن حلقے ایسے ہیں جہاں پر قابل انتخاب آزاد امیدوار کے طور پر جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔

‏پاکستانی سیاست میں  الیکشن سے پہلے قابل انتخاب ہوا کا رخ دیکھ کر پارٹی تبدیل کر لیتے ہیں۔ 2013 میں قابل انتخاب پاکستان مسلم لیگ ن میں چلے گئے ۔ 2018 میں تحریک انصاف میں گئے تھے اور اب 2023 میں بھی اڑنے کے چکر میں ہیں جیسا کہ آزاد کشمیر میں ہو چکا ہے۔ تاہم 2023 میں قابل انتخاب کی اڑان کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے بہت زیادہ نقصان کا باعث نہیں ہوگی۔ قابل انتخاب سے 90 کے قریب نشستوں پر فرق پڑ سکتا ہے مگر پنجاب کی 297 میں سے 200 سے زیادہ نشستوں پر پارٹی جس بھی امیدوار کو کھڑا کرے گی وہ جیت سکتا ہے بشرطیکہ وہ حلقہ میں محنت کرے اور اسکے پاس پارٹی کے مہیا کردہ سیاسی و مالی وسائل بھی موجود ہوں۔ اب سیاسی پارٹیوں کو امیدواران کی توڑ پھوڑ سے نہ ہی ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی بہت زیادہ کمزور کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے سروے کے مطابق اگر تحریک انصاف کے تمام 297 ٹکٹ ہولڈرز پارٹی کو چھوڑ بھی جائیں اور تحریک انصاف اپنے محنتی ورکرز کو ٹکٹ جاری کرے تو پھر بھی وہ 297 میں سے 156 سے زیادہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر جیت سکتی ہے بشرطیکہ صرف بیلٹ کی حد تک بھی الیکشن شفاف ہو جائیں۔

‏ریپلک پالیسی نے اپنے سروے کو اپڈیٹ کر کہ کچھ نئے سوالات پرمبنی لوگوں کی رائے جانچی ہے تاکہ سیاسی جماعتوں کو فیصلہ کرنے میں کچھ حقائق میسرآسکیں۔

‏سروے میں قابل انتخاب کے بارے میں بھی ایک رائے لی گئی ہے۔ اگر تحریک انصاف 297 نشستوں پر نئے امیدواران (جو قابل انتخاب نہ ہوں) کو ٹکٹ دے اور اسکے ساتھ دوسری سیاسی پارٹیوں کے پاس قابل انتخاب ہوں تو پھر بھی وہ 156 سے زائد نشستوں پر آگے ہے۔ 52 نشستوں پر مقابلےکی پوزیشن میں بھی ہے۔ 74 نشستوں پر قدرے کم مقابلے میں ہے اور صرف پندرہ نشستوں پر مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

‏اس طرح مسلم لیگ ن اگر قابل انتخاب کے بغیر الیکشن لڑے اور باقی سیاسی جماعتوں کے پاس قابل انتخاب ہوں تو مسلم لیگ ن پنجاب کی 297 میں سے 42 نشستوں پر آگے ہے۔ 37 نشستوں پر مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ 126 نشستوں پر قدرے کم مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ جبکہ 92 نشستوں پر مقابلے کی دوڑ سے باہر ہے۔

‏اس طرح اگر پیپلز پارٹی کو دیکھا جائے تو  رحیم یار خان سے مخدوم، ملتان سے گیلانی، چنیوٹ سے سید مرتضیٰ اور راولپنڈی سے راجہ پرویز صاحبان نکل جائیں تو پیپلز پارٹی پنجاب کے 297 نشستوں میں سے ایک سیٹ پر بھی آگے نہیں ہے۔

‏اس سروے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں ، ورکرز اور سپورٹرز کے سامنے یہ حقائق رکھے جائیں کہ امیدواران کی توڑ پھوڑ سے اب بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا اگر سیاسی جماعتیں منظم اور مربوط ہوں۔ ہاں، اگر سیاسی جماعتوں کی تنظیم کمزور ہو تو نتائج بدل سکتے ہیں ۔ اب قابل انتخاب نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں خاص طور پر شہروں بلکہ قصبوں کی حد تک مضبوط ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos