مصنف: طاہر مقصود
ہمیشہ سے یہ سنتے آئے ہیں کہ پولیس افسران کاعمومی رویہ عوام الناس کے ساتھ انتہائی نامناسب ہوتا ہے۔ ایف آئی آر کے اندراج سے لے کر تفتیش مقدمہ کے اختتام تک مختلف اخراجات کے نام پر فریقین مقدمہ سے رقم بٹوری جاتی ہے۔ افسران پولیس کا موقف ہے کہ وسائل بہ نسبت مسائل کم ہیں ماضی کی مختلف حکومتوں نے پولیس کے اس موقف کو تسلیم کرتے ہوئے وسائل مہیا کرنے شروع کیے اور تھانہ جات جہاں پر ٹرانسپورٹ کے لیے ایک بائیسکل میسر تھی میں نہ صرف موٹرسائیکلیں مہیا کیں بلکہ گاڑیاں بھی دیں اور اس وقت پنجاب کے ہر تھانہ میں کم ازکم دو گاڑیاں (علامہ موٹرسائیکل جن کی تعداد دس اور زائد ہے) موجود ہیں۔ اکثر تھانوں کی عمارتیں نئی اور اسٹیٹ آف دی آرٹ ہیں۔ تفتیش مقدمات کے اخراجات کیلئے مدپیشگی کے طورپر معقول رقم مہیا کی جاتی ہے یہ ذمہ داری پولیس کے ضلعی سرابرہ کی ہے کہ وہ اس رقم کو منصفانہ طریقہ سے تفتیشی افسران میں تقسیم کرتا ہے یا نہیں۔
Read More: https://republicpolicy.com/myth-of-police-reforms/
پولیس کے خراب رویہ کی وجہ کم پڑھے لکھے افسران کو بھی گردانا جاتا رہا ہے مگر اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پنجاب پولیس کے تفتیشی، اسسٹنٹ سب انسپکٹر، سب انسپکٹر اور انسپکٹر عہدہ کے افسران پی۔ایچ۔ ڈی، انجینئرز، لاء گریجوایٹ اور ماسٹر ڈگری ہولڈر ہیں مگر میرے رویہ کی شکایت اپنی جگہ پر قائم ہے۔
ایک دور تھا کہ پولیس ملزمان پر تشدد اور ماورائے عدالت قتل کیلئے بدنام تھی مگر گذشتہ کچھ عرصہ سے تھانہ جات میں تشدد اور نجی ٹارچر سیلوں میں خاطر خواہ کمی آئی ہے اور سینئر افسران تشدد کی شکایت پر جونیئر افسران کے خلاف اندراج مقدمات سے بھی گریز نہ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود برا رویہ اچھے رویے میں تبدیل نہ ہوسکا تو ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کہیں اس کی وجہ پولیس کا نظام تو نہیں؟
پولیس کا آج کا نظام بھی بنیادی طور پر انگریز کے بنائے گئے ڈھانچے پر ہی قائم ہے۔ جو انگریز نے اس خطہ پر اپنی ”رِٹ“ قائم رکھنے کے لیے بنایا تھا نہ کہ یہاں کے عوام کی خدمات کے لیے پاکستان بننے کے بعد پنجاب پولیس نے اسی نظام کو اپنا لیا اور 1861ء کا پولیس ایکٹ اور 1934کے پولیس رولز کو من و عن نافذ کردیا۔
پولیس آرڈر 2002ء کے نام سے نیا قانون متعارف کرایا گیا تو پولیس رولز وہی پرانے 1934والے ہی اپنالیے گئے اسی طرح جن قوانین پر پولیس نے عملدارآمد کرانا تھا یعنی تعزیرات پاکستان اور جس ضابطہ کے تحت ان قوانین کو لاگو کرانا تھا یعنی فوجداری پر بھی تقریباً اپنی اصلی حالت میں نافذ العمل ہیں جو 1860ء اور 1898ء میں اس وقت کی حکومت نے اُس وقت کے لوگوں اور اُس وقت کے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے تھے۔
ابتدائی طور پر پولیس کی اہم ذمہ داری جرائم کا انسداد اور جرائم کی سراغ براری کے علاوہ سڑکوں پر موجود ٹریفک کو رواں رکھنا اور دریاں کے گھاٹوں پر موجود کشتیوں کومنظم رکھنا تھا وقت تیزی سے تبدیل ہوتا گیا۔ آبادی میں اضافہ ہوا، صنعتی ترقی ہوئی ٹریفک میں اضافہ ہوا۔ تو جرائم کی بھی نئی صورتیں سامنے آئیں جس میں مذہبی فرقہ وارانہ دہشت گردی سب سے خطرناک تھی جس کی جڑیں نہ صرف صوبے اور ملک کے اندر تھیں بلکہ راستے تانے بانے سرحد پار سے ملتے تھے۔ اسی طرح انٹرنیٹ، موبائل فون ودیگر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کیے جانے والے جرائم بھی وجود میں آئے۔ مگر پولیس اس کے لیے تیار نہ تھی جس کی وجہ سے اس قسم کے جرائم کی بیخ کنی کے لیے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
Read More: https://republicpolicy.com/thana-culture-ya-police-culture/
کہا یہ جاتا ہے کہ اگر کوئی کمپنی یا ادارہ وقت کے ساتھ خود کو تبدیل نہیں کرتا تو وہ اپنے عصروں سے پیچھے رہ جاتا ہے اور آخر کار معدوم ہوجاتا ہے۔ پنجاب پولیس بھی تقریباً ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ حکومت وقت نے تو ممکن حد تک پنجاب پولیس کو معقول وسائل مہیا کردئیے ہیں۔ مگر پولیس کی بھرتی اور ٹریننگ تو خالصتاً پولیس قیادت کی ذمہ داری ہے۔ ترقی کے اس دور میں جبکہ کوئی مریض عام ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے ماہر ڈاکٹر کے پاس جانے کو ترجیح دیتا ہے پولیس آج بھی جنرل کیڈر بھرتی پر قائم ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس میں حسب ضرورت مختلف کیڈر بنائے جائیں۔ مثلاً شعبہ تفتیش، سکیورٹی، لیگل برانچ، اپریشن، ٹریفک، انٹیلی جنس، نگرانی، پروٹوکول وغیرہ شعبہ تفتیش میں مزید سب کیڈر بنائے جاسکتے ہیں۔ماضی میں یہ تجربہ کیاجاچکا ہے جب”ھومی سائیڈ تفتیشی یونٹ“ بنا کر منتخب افسران کو خصوصی تربیت دے کر قتل کی تفتیشوں پر لگایا گیا اس سے نہ صرف تفتیشوں کا معیار بہتر ہوا تھا بلکہ مقدمات میں سزا ہونے کی شرح میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ مگر بعدازاں یہ یونٹ ختم کردیا گیا (جس کی وجوہات پر آئندہ تحریر کیاجائے گا۔)
پولیس کی بدنامی کی ایک وجہ چوری، ڈکیتی وغیرہ کے مقدمات میں مال مسروقہ کی برآمدگی کا کیا جانا بھی ہے۔ میرے خیال میں یہ ذمہ داری پولیس کی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ مال مسروقہ کی برآمدگی کی آڑ میں تفتیشی افسران غیر قانونی حراست، تشدد اور رشوت خوری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں قانونی ترمیم کی ضرورت ہو تو متعلقہ حکومت کو سفارش کی جانی چاہیے۔
Read More: https://republicpolicy.com/dissecting-css-examinations%ef%bf%bc/
سی ٹی ڈی اور اسپیشل برانچ میں لوگوں کو بھرتی کرکے مخصوص ٹریننگ دی گئی تو یہ لوگ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے کام میں ماہر ہوگئے اور دنیا مصرف ہے کہ سی ٹی ڈی پنجاب کی بدولت صوبہ سے دہشت گردی کا خاتم ہوا ہے اسی طرح ایس پی یو کے قیام کے بعد ایسی جگہوں کی سیکورٹی کا معیار بہتر ہے جہاں ایس پی یو کے جوان تعینات ہوتے ہیں، ٹریفک وارڈن سروس کی بدولت ٹریفک نظام میں بھی بہتری کے آثار ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اے آئی جی ڈویلپمنٹ کی جگیر کوئی انجینئر ہو۔ لاجسٹک اور پرو کیورمنٹ کی جگہ پر فنانس میں ماسٹر ڈگری ہولڈر کا تقرر کیا جائے۔ افسران پولیس کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ ہرکام کے ماہر ہیں۔
ہر فن مولا ہر فن ادھورہ