Premium Content

“رنگ،ڈھنگ،اُمنگ اور بھنگ”

Print Friendly, PDF & Email

تحریر:    ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں۔

دنیا میں ہررنگ،ڈھنگ کے لوگ پائے جاتے ہیں جیسے کہ گئے وقتوں میں ساؤتھ افریقہ میں انگریزوں کی نسل پرست حکومت تھی وقت گزرنے کے ساتھ حکومت نے مجبور ہو کر الیکشن کرواناشروع کردیئے۔ اسی جمہوری مجبوری کے تحت ایک دن ایک گورا صاحب ووٹ مانگنے کالے بھائیوں کی  آبادی میں چلا گیا۔ اُس نے کافی لمبی تقریرکی مگر ہجوم پر کچھ اثر نہ ہواآخرکار اُس نے کہا آپ میرے ظاہری رنگ پر نہ جائیں، میرے دل اوراعمال کارنگ آپ کی جلد سے بھی زیادہ سیاہ ہے۔ اس لیئے ووٹ مجھے ہی دیں۔ اُن کی آخری بات کا مجمع پر جو اثر ہوا،وہ سیاہ حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔

               ہمارے دور میں نشترمیڈکل کالج کے طالب علموں کابھی اپنا ہی رنگ ڈھنگ تھا۔ میرے ہم جماعت، جومیرے ساتھ ایک کمرے میں بھی رہتے تھے،اکثر مجھے کہتے تھے کہ آپ ہر وقت میرے ساتھ رہا کرو۔ اس سے مجھے بڑا حوصلہ اور سکون ملتاتھا۔میں نے ایک دن انہیں کہا، وڑائچ صاحب، آپ ہر وقت مجھے اپنے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں، میں اس محبت اور پیار کیلئے آپ کا انتہائی مشکور ہوں۔ میر بات سن کر وڑائچ صاحب ہنس دیئے اور کہنے لگے بات پیار محبت سے زیادہ اعتماد کی ہے۔آپ کو دیکھ کر میرا اپنی ذات پر اعتماد بڑھ جاتا ہے اور مجھے یہ اطمینان ہوتا ہے کہ اس شکل اورعقل کے ساتھ آپ اگر میڈیکل کالج میں داخلہ لے سکتے ہواورایسے رنگ و ڈھنگ کے ساتھ بھی اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہوتو وڑائچ میں بہت زیادہ صلاحیتیں ہیں اوروڑائچ توایک دن دنیا پرچھاجائے گا۔

               کچھ لوگوں کا رنگ ڈھنگ دیکھ کر ان پہ ترس آتا ہے تو کچھ لوگوں کا رنگ اور ڈھنگ دیکھ کر بندے کو خود پہ ترس آنے لگ جاتا ہے۔بعض لوگوں کا رنگ اور ڈھنگ دیکھ کر جینے کی اُمنگ پیدا ہوجاتی ہے تو بعض لوگ دوسروں کی زندگی کے رنگ میں اپنی بھنگ گھولنے کے ماہر ہوتے ہیں۔

محبوب کا رنگ دیکھنا چاہیے یا ڈھنگ دیکھنا چاہیے یا صرف اپنی اُمنگ اوراپنے دل کی ترنگ دیکھنی چاہیے۔ اس سلسلے میں مختلف لوگوں کی آرا مختلف ہیں۔کچھ حضرات تو کہتے ہیں کہ محبوب کا کچھ بھی نہیں دیکھنا چاہیے بس محبوب کودیکھنا چاہیے۔ ایسے ہی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ محبوب کا ڈھنگ نہیں دیکھنا چاہیے مگر رنگ ضرور دیکھنا چاہیے۔ جبکہ نقاد قسم کے حضرات کہتے ہیں محبوب کا رنگ،ڈھنگ دونوں دیکھنے چاہیے اورمحبوب کوکوئی رعایت نہیں دینی چاہیے۔ کچھ وسیع القلب حضرات کا موقف یہ ہے جوہستی ہماری جیسی شخصیت کامحبوب بننا گوارہ کرلے، اُس کا رنگ ڈھنگ کچھ نہیں دیکھنا چاہیے صرف اُس کا ظرف کی داد دینی چاہیے۔

            پہلے مزاروں پررہنے والے لوگ ڈھنگ کے ہوتے تھے اورآنے والوں کوتصوف کے رنگ میں رنگ دیتے تھے اب یہ دیکھ کر شدید دکھ ہوتا ہے کہ مزار پرمنڈلانے والے لوگ تصوف کے رنگ کیلئے نہیں بھنگ کیلئے پریشان ہوتے ہیں۔  پہلے غریب کی زندگی کا ڈھنگ مزار پر آکربدل جاتاتھا۔اُس کے غم فناہوجاتے تھے۔اُس کوجینے کیلئے ایک پناہ گاہ مل جاتی تھی۔ اب ان جگہوں پر بھی دنیا کارنگ غالب آچکا ہے۔ یہاں کا ڈھنگ بدل گیا ہے۔غریب کا انگ انگ جب دکھ رہا ہوتا ہے اور اُس کو گاہے بگاہے سکون کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ مزاروں اور درگاہوں کارخ کرتا ہے مگر اب یہاں کارنگ، ڈھنگ دیکھ کر انگ انگ کے دردکے ساتھ اُس کی روح کی اُمنگ اور ترنگ بھی ختم ہونے لگتی ہے۔ اب تو بہت سی جگہوں پر صرف بھنگ کادور دورہ ہے رنگ میں بھنگ پڑ چکی ہے۔پہلے درباروں پررہنے والے لوگوں کے خون پسینے سے تقوی کی خوشبوآتی تھی اب اکثر جگہ پرمجاوروں اوراُن کے ساتھیوں کے منہ سے صرف بھنگ کی بُوآتی ہے۔ اگرچہ اس دورمیں بھی صحرامیں نخلستان کے مصادق کئی درگاہیں ایسی ہیں جودرگاہیں بھی ہیں اوربہترین درسگاہیں بھی ہیں۔

            گئے دنوں میں دل ِمسلم کی ایک ہی تمنا ہوتی تھی کہ وہ اللہ کے رنگ میں رنگا جائے اوراُس کے انگ انگ سے پاکیزگی کی خوشبوآئے۔ مومن کی تمنافقط رضائے ربانی ہواکرتی تھی اُس کامن جانتا تھاکہ اللہ کے رنگ سے بہتر کسی کا رنگ نہیں ہے۔اللہ کے بندے کے ڈھنگ سے بہترکسی کا ڈھنگ نہیں۔آج کا نوجواں اپنی اُمنگ سے ہاتھ دھو بیٹھاہے، اپنے ماضی کو رو بیٹھاہے، دنیا کا ہو بیٹھا ہے، مگردنیا ہے کہ اُس کی پہنچ سے دور ہے۔بھنگ کے زیر اثر میسراُس کو عارضی سرور ہے، مگراعلیٰ کردار کا جو غرور ہے، ہمارا ماضی جس سے بھرپور ہے، آج وہ غیر کا سرمایہ ضرور ہے۔اُس کی تمنا سے دل ہمارا بھرپور ہے لیکن حقیقت میں وہ ہماری پہنچ سے بہت دور ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے رنگ میں رنگ لیں اورہمیں بھی اپنے بزرگوں کی طرح دنیاکی قیادت کا اہل کردیں اورہماری آخرت سہل کردیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos