“اداریہ”
ایک غیر متوقع پیشرفت میں، پاکستان میں زرِمبادلہ کی مقدار میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے.ایسے وقت میں جب توقع تھی کہ اس میں کمی واقع ہو گی۔ تاریخی طور پر، فصل کی کٹائی کے بعد لیکویڈیٹی میں اضافے کی بڑی وجہ حکومت کی گندم کی خریداری کے لیے بینکوں سے بھاری موسمی قرضے لینا رہا ہے۔ تاہم، اس سال حکومت نے اس سرگرمی سے خود کو علیحدہ رکھا ہے، پھر بھی ریزرو منی اور مجموعی لیکویڈیٹی میں اضافہ جاری ہے۔
کرنسی ان سرکولیشن ریزرو منی اور براڈ منی تینوں میں مارچ 2025 سے سال بہ سال 14 فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ یہ غیر معمولی اضافہ ایک نئے ذریعہ لیکویڈیٹی کی نشاندہی کرتا ہے: رمضان اور عید کے دوران بیرونِ ملک سے ریکارڈ سطح پر بھیجی گئی ترسیلات، جو سالانہ بنیاد پر 35 فیصد سے زائد بڑھیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر سہارا نہیں دے رہا۔ بلکہ، وہ اضافی زرمبادلہ کو اس لیے خرید رہا ہے تاکہ روپے کی قدر میں اچانک اضافہ نہ ہو۔ لیکن جب زرمبادلہ خریدا جاتا ہے اور اس کے بدلے میں مارکیٹ میں روپے چھوڑے جاتے ہیں، تو اس کے اثرات کو “سٹیریلائز” نہ کرنے کی صورت میں، مالیاتی نظام میں چپکے سے وسعت آ جاتی ہے۔
اگر یہ ترسیلات کی بنیاد پر روپے کی فراہمی کا عمل بغیر سٹیریلائزیشن کے جاری رہا، تو اگرچہ فوری طور پر مہنگائی میں اضافہ نہ ہو، لیکن وقت کے ساتھ اس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ حالیہ اعداد و شمار اس کی تائید کرتے ہیں.کرنسی ان سرکولیشن میں اضافہ جو 2024 کے آخر تک اوسطاً 5 فیصد سے کم تھا، محض 12 ہفتوں میں 15 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ ریزرو منی بھی اسی رجحان کی پیروی کر رہا ہے۔
یہ صورتِ حال فوری پالیسی سوالات کو جنم دیتی ہے: کیا اسٹیٹ بینک خاموشی سے ترسیلات کو مانیٹائز کر رہا ہے؟ اگر ہاں، تو اس کی روپے کی فراہمی کو متوازن کرنا کی حکمتِ عملی کیا ہے؟ جب تک شفافیت اور قابلِ اعتبار مہنگائی کنٹرول پالیسی سامنے نہیں آتی، پاکستان ایک بار پھر مانگ کی بنیاد پر مہنگائی کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے.ایسے وقت میں جب معاشی استحکام آہستہ آہستہ بحال ہونا شروع ہوا ہے۔
اسٹیٹ بینک کو چاہیے کہ فوری طور پر وضاحت کرے کہ وہ کس پالیسی کے تحت زرمبادلہ مارکیٹ میں مداخلت کر رہا ہے، اور اس بات کو یقینی بنائے کہ سرمائے کی دستیابی کا انتظام مہنگائی کے اہداف کے مطابق ہو۔ بصورتِ دیگر، ممکن ہے کہ مرکزی بینک کو مہنگائی کی جڑیں مضبوط ہونے کے بعد ہی شرحِ سود میں ہنگامی اضافے جیسے ردعمل پر مجبور ہونا پڑے۔