ناصر بلوچ
ماہرنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر کارکنان کی مسلسل گرفتاری محض ایک قانونی معاملہ نہیں بلکہ ہمارے جمہوری رویے اور ریاستی طرزِ حکمرانی کا آئینہ ہے۔ جب پاکستان کو اندرونی و بیرونی چیلنجز درپیش ہیں، ایسے میں عوامی آوازوں کو دبانے کے بجائے ان سے مکالمہ کرنا، احترام سے سننا اور آئینی راستوں سے مسائل حل کرنا ہی قومی یکجہتی کا ضامن ہو سکتا ہے۔
ماہرنگ بلوچ، جنہوں نے جبری گمشدگیوں کے خلاف پُرامن آواز بلند کی، مارچ میں گرفتار ہوئیں اور تاحال ایم پی او جیسے قانون کے تحت قید میں ہیں۔ حالیہ دنوں انہیں مزید دس دن کے لیے پولیس ریمانڈ پر دے دیا گیا، حالانکہ عوامی سطح پر ان کے خلاف کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ اس سارے عمل سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ قانونی ہتھیاروں کو اختلاف رائے دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
تاہم یہ صورتحال ریاست کے لیے ایک موقع بھی ہے کہ وہ سوچے اور اپنی حکمت عملی پر نظرِ ثانی کرے۔ بلوچستان کو صرف سی کیورٹی کے زاویے سے دیکھنا ایک محدود سوچ ہے۔ یہاں کے عوام نے بارہا آئینی، پُرامن اور جمہوری طریقوں سے اپنے مسائل اٹھائے ہیں، ان آوازوں کو سننا چاہیے، نہ کہ خاموش کر دینا۔
ریاست کی یہ ذمہ داری صرف قانون نافذ کرنے کی نہیں، بلکہ جمہوری اصولوں کا تحفظ کرنے کی بھی ہے۔ اختلاف رائے، احتجاج اور سیاسی شرکت کسی بھی جمہوری معاشرے کا حسن ہوتے ہیں۔ اگر پُرامن کارکنوں کو مجرموں کے برابر کھڑا کیا جائے، تو اس سے صرف بیگانگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، لیکن اس کا حل ان افراد کو جیل میں ڈال کر نہیں نکلے گا جو آئینی اور پُرامن طریقے سے اپنے حقوق مانگ رہے ہیں۔ اگر مکالمے کے دروازے بند کر دیے جائیں، تو مایوسی جنم لیتی ہے، اور یہی مایوسی شدت پسندی کو جنم دیتی ہے۔
بلوچستان کے عوام کے خدشات، خواہ وہ لاپتہ افراد کا معاملہ ہو، وسائل کی منصفانہ تقسیم یا سیاسی شمولیت، سب آئینی و سیاسی توجہ کے مستحق ہیں۔ ایسے میں ماہرنگ بلوچ جیسے کارکنان، جو احتجاج اور آواز بلند کرنے کے لیے جمہوری دائرے میں رہتے ہیں، ان سے بات چیت ہی بہتر راستہ ہے۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.
عدلیہ کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت درخواست ایک مثال بن سکتی ہے کہ آیا پاکستان میں آئینی حقوق واقعی سب کے لیے مساوی ہیں۔ عدالتیں اگر اس موقع پر آئینی راستے کی توثیق کریں تو یہ ریاست کے جمہوری تشخص کے لیے مثبت اشارہ ہوگا۔
آگے بڑھنے کے لیے ریاست کو چاہیے کہ بلوچستان میں باقاعدہ سیاسی مکالمے کا ماحول پیدا کرے، ایم پی او جیسے قوانین کے بے جا استعمال پر نظرثانی کرے، اور نوجوانوں و سول سوسائٹی کو فیصلہ سازی میں شامل کرے۔ بے بنیاد مقدمات واپس لینا اور قید کارکنوں کی رہائی جیسے اقدامات اعتماد بحال کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ بلوچستان میں پائیدار امن اور یکجہتی کا راستہ اختلاف کو دبانے میں نہیں، بلکہ سننے، سمجھنے اور آئینی دائرے میں بات چیت کرنے میں ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ریاست ایک مفاہمتی راستہ اپنائے، جہاں جمہوریت کا بول بالا ہو، اور ہر شہری کو عزت و وقار کے ساتھ اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہو۔ یہی قومی یکجہتی کا حقیقی راستہ ہے۔