Premium Content

سال 2022 ،جب سب آشکار ہوئے

Print Friendly, PDF & Email

مصنف :           بیرسٹررومان اعوان

وقت کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ یہ بہت بے رحم ہوتا ہے۔ کہیں یہ انسان کے عیبوں کو چھپا کر عزت سے نوازتا دکھائی دیتا ہے، تو دوسرے لمحے یہ اُس انسان کے عیبوں کو نہ صرف آشکار کرتا بلکہ سرِ بازار اچھالتا بھی دکھائی دیتا ہے۔

         وقت نے کچھ ایسا ہی سلوک گزشتہ سال ہمارے ملک کے بڑے اکابرین کے ساتھ کیا ہے۔ وہ اکابرین جو اپنی ذات میں ایک ادارہ، جن کی جنبش ِ ابرو سے زمانہ ادھر سے اُدھر ہوجائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں یہ اکابر  اورمختلف  ادارے ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

         مقتدرحلقوں کی اصطلاح سے کون واقف نہیں؟ موجودہ حالات میں اس اصطلاح کی سمجھ کچھ اس طرح سے عام آدمی تک پہنچی ہے کہ ابہام کے تمام پردےاٹھ گئے ہیں۔’مقتدرحلقوں‘ کے سیاسی کردار کے حوالے سے کی جانے والی چہ مگوئیاں اب محض قصے کہانیاں نہیں۔ ان کا سیاسی کردار اب باقاعدہ ایک حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ سابق آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس اعتراف کے بعد کہ ہم نے فروری 2022ء سے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے نے’مقتدرحلقوں‘ کے سیاسی کردار پر تصدیقی مہر ثبت کردی ہے۔  صرف یہی نہیں بلکہ نمبر ون کہلانے والے ادارے کو بھی میڈیا پر آ کر اپنی صفائیاں پیش کرنی پڑیں کہ اس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ غرض نیوٹرل، غیرجانبدار اور غیرسیاسی ہونے کے دعوے دار مقتدرحلقے ہمیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ہر ایک موڑ پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سیاست  دان ہی ہیں جو ’مقتدرحلقوں‘ کے لیے ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ وہ مداخلت کریں اور یہ سیاستدان ہی ہیں جو رات کی تاریکی میں ان ’مقتدرحلقوں‘ سے ملتے ہیں ، ساز باز کرتے ہیں تاکہ اقتدارکے کے دروازے ان پر کھل سکیں اور وہ کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر اپنے مفادات کی تکمیل کرسکیں۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی رات گئے جنرل راحیل شریف کے ساتھ ملاقاتوں کی خبروں سے کون واقف نہیں؟ یہی نہیں بلکہ عمران خان کھلم کھلا ’مقتدرحلقوں‘ کو ’مداخلت‘  کی دعوت دیتے اور انہیں اکساتے نظر آتے ہیں کہ جیسے اس ملک پر اقتدار صرف ان کا ہی جائز حق ہے اور باقی سب چور اور ڈاکو ہیں جو کہ ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیں۔ جب ’مقتدرحلقوں‘ کی جانب سے یہ جواب ملتا ہے کہ وہ تو اس سلسلے میں نیوٹرل ہیں تو انہیں یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے ۔ بات یہیں نہیں رکتی بلکہ میر جعفر اور میر صادق کےالقابات تک پہنچ جاتی ہے۔ غرض یہ کہ تمام ہی سیاسی جماعتیں اور سیاستدان ’مقتدرحلقوں‘ سے اپنے حق میں مداخلت کی خواہش رکھتے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ ایسی کسی بھی مداخلت کے نتیجے میں وہ ’مقتدرحلقوں‘ کے ساتھ جا کھڑے ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس مداخلت کا کوئی بھی جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وقت آنے پر مقتدرحلقے ہوں یا پھر سیاستدان دونوں کے چہرے ہی بے نقاب ہوگئے۔

         عمران خان کا یہ دعویٰ کہ اُن کے پاس بہترین ٹیم اور ویژن ہے۔ اس سال اس وقت بری طرح ایکسپوز ہوگیا جب وہ تقریباً پونے چار سال تک حکمران رہنے کے باوجود ایک بھی شعبے میں ذرا سی بہتری بھی نہ لاسکے۔ شوکت خانم ہسپتال کو بہترین انداز سے چلانے والے عمران خان اپنے بیش بہا دعوؤں کے باوجود سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے انٹری یعنی پرچی کے حصول کے طریقہ کار کو بھی بہتر نہ کر سکے اور یوں علاج معالجہ تو دور کی بات پرچی کا حصول بھی مریضوں کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ لاکھوں گھر اور کروڑوں نوکریوں کے دعوے بھی ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ عمران کے دور میں منی لانڈرنگ رک سکی اور نہ کرپشن میں کمی آئی ۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل  نے پاکستان میں کرپشن کی شرح میں اضافے کے اعدادوشمار جاری کیے۔ غرض وہ کسی بھی شعبے میں بہتری لانے میں بری طرح ناکام رہے اور ایک ہارے ہوئے کردار کی طرح اپنی تمام تر ناکامیوں کا ملبہ ’مقتدرحلقوں‘ پر ڈالتے دکھائی دیے۔ یوں اب اُنہیں ووٹ حاصل کرنے کے لیے کچھ نیا منجن بیچنا درکار ہے۔ اُن کے ہاتھ میں پرانی شراب مگر بوتل نئی ہے۔ اس طرح بیرونی مداخلت اور سائفر کا معاملہ بھی اپنی موت آپ مرگیا۔ ہاں! اس سال اُنہوں نے اپنے سیاسی قد میں خاطر خواہ اضافہ کیا ۔ عمران نے اپنی جارحانہ سیاست سے مخالفین کو نہ صرف ٹف ٹائم دیا بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے عمران کی مقبولیت کا اپوزیشن کے پاس کوئی توڑ نہیں۔ وہ آج بھی پاپولر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ سعد رفیق بھی اس بات کا اعتراف کرتے نظر آئے کہ عمران ہم سے بہتر سیاست کر رہا ہے۔

مسلم لیگ ن کا مجھے کیوں نکالا گیا کے بعد، ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ بہت مقبول ہوا۔  پھر سب نے دیکھا کہ جن کے ہاتھوں ووٹ کی عزت پامال ہوئی تھی یہ جماعت اُنہی کے ساتھ بغل گیر ہوتی دکھائی دی اور آج انہی کی وجہ سے اقتدار کے مزے بھی لوٹ رہی ہے اور اس طرح  ووٹ کو عزت دو کے  بیانیے کو تھپکی دے کر سلادیا گیا۔ مستقبل میں جب کبھی اس بیانیے کی ضرورت محسوس ہو گی اس بیانیے کو جگا دیا جائے گا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ن لیگ کبھی بھی عوامی پارٹی نہیں رہی ہے۔ یہ جب بھی اقتدار میں آئی، ’مقتدرحلقوں‘ کی اشیرباد سے ہی آئی۔ اس پارٹی کے اندر اتنا دم خم نہیں کہ ’مقتدرحلقوں‘ کی مدد کے بغیرزندہ رہ سکے۔

         پی ڈی ایم کا اپنا بیانیہ کہ عمران سلیکٹڈ، نااہل اور نالائق ہے۔اس کا اپنا منہ چڑارہا ہے کہ یہ تمام الزامات اب پی ڈی ایم کے اپنے گلے کا ہار بن گئے ہیں۔ حالانکہ کون نہیں جانتا کہ اس بھان متی کے کنبے کو کس نے جوڑا ، کیوں کر جوڑا؟ پی ڈی ایم کی طرف سے پی ٹی آئی پر اچھالے جانے والے پتھر چار گنا ہوکر لوٹتے ہیں۔ جس مقام تک پہنچنے میں عمران کو پونے چار سال لگے پی ڈی ایم صرف 8ماہ میں وہاں کھڑی ہے۔

         شہباز شریف ہمیشہ سے ہی ایک اچھے منتظم مانے جاتے تھے۔ بطور وزیراعلیٰ ہتھیلی پر سرسوں جمانا اُن پر صادق آتا تھا۔ لیٹ سونا، جلدی اُٹھنا، 20، 20گھنٹے کام کرنا، چھاپے مارنا،لوگوں میں گھل مل جانا، موقع پر احکامات صادر کرنا اور پھر ان پر عمل کروانا، شہباز شریف کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ مگر وہ جب سے وزیراعظم بنے ہیں، یہ تمام خوبیاں اُن میں عنقا ہوگئی ہیں اور لوگ اب یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ یہ وہ تو نہیں۔

         اسحاق ڈار کے بارے میں بھی کچھ اس طرح کا تاثر قائم کیا گیا تھا کہ اُن کے ہاتھ میں بھی شاید کوئی جادو کی چھڑی ہے۔ ڈارصاحب چھڑی کو گھمائیں گے، تو ملک کے معاشی حالات ایک دم ٹھیک ہوجائیں گے۔ اسحاق ڈار واپس آگئے ہیں۔صبح میٹنگز، شام کانفرسنز مگر نتیجہ صفر، وہی ڈھاک کے تین پات۔ ڈار، ڈالر کے پاؤں سے پتھر باندھ سکے ہیں اور نہ وہ مہنگائی میں اضافے کی اُڑان کے پرکاٹ سکے ہیں۔ اُن کی بے بسی بھی دیدنی ہے۔ آج کل آئی ایم ایف ان کا کعبہ ہے۔ مگر مجال ہے کہ ان پر نظرکرم پڑی ہو۔

 پیپلز پارٹی اس ملک کی سب  سے ذہین اور چالاک سیاسی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ جو جمہوریت کو بہترین انتقام سمجھتی ہے اور ’مقتدرحلقوں‘  کے سیاسی کردار پر ہمیشہ تنقید کرتی دکھائی دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ’مقتدرحلقوں‘ کی طرف سے ہمیشہ باقی رہ جانے والے زخم  ملے ہیں، مگر وقت نے ثابت کیاہے کہ اندرون خانہ، ’مقتدرحلقوں‘ سے راہ و رسم بڑھانے میں جتنی بے قرار یہ پارٹی دکھائی دیتی ہے، شاید ہی کوئی اور ہو۔ وقت نے پیپلز پارٹی کا جمہوریت پسندی  کا لبادہ بھی اُتار پھینکا ہے۔  

بظاہر عدلیہ انصاف کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ مگر پاکستان میں عدالتیں ہمیشہ سے ہی ’مقتدرحلقوں‘ کی باندی کا رول اداکرتی رہی ہیں۔ ’مقتدرحلقوں‘ کے ایما پر کسی بھی منتخب حکومت کی چھٹی کروانی ہو، کسی کو غدار یا صادق و امین کا سر ٹیفکیٹ بانٹنا ہو، عدالتیں ہمیشہ سے ہی  حکم بجالاتی رہی ہیں۔ ایک عرصے تک ان عدالتوں کا یہ کردار عام آدمی کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ مگر سال 2022ء میں عدالتیں بھی بُری طرح ایکسپوز ہوئیں کہ وہ کس طرح طاقتورحلقوں  کے اشاروں پر ناچتی ہیں۔ وہ عدالتیں جہاں آئے روز انصاف کا گلا گھونٹا جاتا ہے ، وہ عدالتیں جہاں لاکھوں مقدمات دہائیوں سے فیصلوں کے منتظر ہیں، وہ عدالتیں جہاں انصاف باقاعدہ بکتا ہے، ان عدالتوں کو ‘انصاف’ کی فراہمی کے لیے آدھی رات کو بھی کھلتے دیکھا گیا ہے۔  

اس طرح لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ شاید وہ کچھ بہتر ہیں جو کم ننگے ہیں یا پھر اپنے ننگے پن کو ڈھانپنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ یہ کم ننگےعام آدمی کے وجود سے چادر چھین کر  اپنے ننگے پن کو ڈھانپنے کی بجائے، عوام کے تن کو ڈھانپنے کی کوشش کریں۔ کچھ ایسی پالیساں بنائیں کہ جن سے عام آدمی کی مشکلات اور دکھوں کا مداوا ہو۔ ورنہ و قت تو ہے ہی بہت بے رحم ۔ یہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا جب تک کہ یہ ہر ایک کے باطن کو آشکار نہ کردے، جیسے اس نے سالہ گزشتہ میں سیاست دانوں اور ’مقتدرحلقوں‘ کے کردار کو آشکار کیا ہےاور اسی میں ہمارے لیے سبق ہیں۔

6 thoughts on “سال 2022 ،جب سب آشکار ہوئے”

  1. Its splendid because it has touched the performance of most of our stretegic institutions spread over the entire year without any maliciousness.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos