Premium Content

Add

سرائیکی وسیب اور سیاسی طبقاتی جدوجہد

Print Friendly, PDF & Email

مصنف:     ڈاکٹر سعید احمد بزدار

مصنف سیاسی ورکر اور پیشے کے لحاظ سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔

ویسے تو سرائیکی وسیب کی طرح پورے پاکستان میں ہمیشہ سیاست میں سرگرم جمہوری پارٹیوں نے انتخابات کی سیاست میں ایک جیسا کردار ادا کیا ھے۔ لیکن سرائیکی وسیب کے اضلاع ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کی سیاست میں جاگیردارانہ اور سرداری نحوست کے سائے کچھ زیادہ ہی شدت کے ساتھ چھائے رہے ہیں۔ تقسیم برصغیر سے پہلے جس طرح  بلوچ قبائلی تمندارانہ کلچر اس خطے کی تقدیر کے سیاہ و سفید پر حاوی تھا۔ 1947ء کی تقسیم کے بعد بھی اسی طرح اس نحوست کی جکڑبندی کا شکار کا تسلسل جاری رہا ۔ ایک طرف اگر پورے پاکستان کی جعلی آزادی کو اردو کے عظیم شاعر فیض احمد فیض ” داغ داغ اجالے اور شب گزیدہ سحر” کہہ رہے تھے۔ تو دوسری طرف سرائیکی خطے کے معتبر شاعر جناب سرور کربلائی اس خطے کو نَوں خداویں دی نحس دھرتی (نَو خداؤں کی منحوس سرزمین ) کا نام دے رہے تھے۔ یہاں کے  9 خدا وہ لغاری، مزاری، بزدار، کھوسے دریشک، قیصرانی، گورچانی اور دو لُنڈ سردار اور تمندار تھے۔ جو یہاں کے سب سیاہ سفید کے مالک تھے۔  شروع شروع میں یہاں کی سیاست دو بڑے قبائلی سرداروں لغاری اور مزاری گروپ میں تقسیم تھی۔ جس کے سرخیل سابق صدر فاروق لغاری کے دادا جمال لغاری اور سابق ڈپٹی سپیکر پنجاب میر دوست محمد مزاری کے دادا سابق وزیراعظم میر بلخ شیر مزاری تھے۔ باقی بلوچ قبیلے ان کی حمایت میں پیچھے صف بستہ تھے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ 1967-68 ء کی عوامی انقلابی سرکشی نے ایک کروٹ لی ۔ جس میں ذوالفقارعلی بھٹو نے عام طبقے کی حمایت سے نہ صرف پاکستان بھر کے سرداروں، چوہدریوں، نوابوں، مخدوموں، خوانین اور وڈیروں کو للکارا بلکہ 1970ء کے جنرل الیکشن میں عام سیاسی ورکروں کے ہاتھوں بہت سے قد آور بتوں کو پاش پاش کر دکھایا۔ اگرچہ ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کے سرداروں کو اس طرح تو شکست نہیں ہوئی مگر یہاں سے پاکستان پیپلزپارٹی کے ورکرز بشیرالدین سالار، حمیداصغیر شاہین، منظور لُنڈ، اکبر ملکانی، ظفر پتافی، جہانگیر وٹو، جام محمد بخش، مجید ذوق، عاشق بزدار ، شوکت بھٹی اور خاوند بخش جیسے بے شمار سیاسی کارکنوں نے ان سرداروں پر لرزہ طاری کردیا۔  بعد میں پھر پورے پاکستان کی طرح یہاں بھی وھی ہوا کہ سارے بڑے بڑے برج پیپلزپارٹی میں چور دروازوں سے اندر آگئے ۔ اور ان سرداروں نے پچھلے خوف کے پیش نظر نہ صرف پارٹی کی اگلی صفوں میں آگئے بلکہ یہاں پارٹی کلچر کو پنپنے ہی نہیں دیا۔ تمام تنظیمی عہدوں کی اپنے کاسہ لیسوں میں بندربانٹ کی۔ خوشامد اور چاپلوسی کو فروغ دے کر پارٹی میں اپنے ذاتی مزارعوں والا کلچر پروان چڑہایا۔ اور یہ رحجان صرف پیپلزپارٹی تک محدود نہ رہا بلکہ ہر پارٹی نے اسے اپنایا۔ ابن الوقت، وفاداریاں بدلنے اور بیچنے والوں کو منتخب کا نام دے کر عام لوگوں پر مسلط کیا۔ بیہودہ سیاست کی اس بہتی گنگا میں باقی سیاسی و انتخابی پارٹیوں نے بھی اسی کلچر کو اپنا کر فروغ دیا۔ جس کا یہ نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ جب کبھی کوئی سردار، جاگیردار اور تمندار جس پارٹی سے بھی نکلتا ھے وہ اپنے کاسہ لیسوں سمیت نکلتا ھے اور پارٹی اندر سے خالی ہو جاتی ہے۔ مگر کوئی بھی پارٹی اس سے سبق نہیں سیکھتی بلکہ دوسری طرف سے آنے والے منتخب کے گند سے پارٹی کو بھر کر اسی گھن چکر کو چلایا جاتا ھے اور اب تک چلایا جا رہا ھے۔

لیکن شاید ایسا ہر وقت ہونا ممکن بھی نہ ہو۔ اب کئی دہائیوں سے منظرنامہ بدل رہا ہے۔ ایک طرف جبر کی انتہا ہو چکی ہے۔ تو دوسری طرف پارٹیوں میں ان سرداروں کے خلاف ایک مزاحمت بھی موجود ہے۔ یہ صرف رسمی بات نہیں ھے۔ یہاں پیپلزپارٹی میں سابقہ مختلف انتخابات میں عبدالرؤف لُنڈ۔ ایڈووکیٹ، عاشق بزدار، خلیل برمانی، عاشق بزدار، سیف اللہ سدوزئی، ملک سبطین سرور ارائیں، شازیہ عابد مقامی سرداروں کو بڑی جرات مندی سے للکار چکے ہیں۔  اور خود راقم الحروف کے چوٹی زیریں کے الیکشن کا ریکارڈ گواہ ھے کہ محسن لغاری صوبائی سیٹ پر مجھ سے واضح طور پر ہار گیا تھا مگر پھر ریاست مشینری سے اسے جتوا دیا گیا۔ مقامی سرداروں کو للکار چکے ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ ن سے میر مرزا ٹالپور، پی ٹی آئی سے مرزا عبدالکریم گگن اور عبدالرزاق راجہ ، محترمہ زرتاج گل سمیت بہت سے ورکرز کے نام نمایاں ہیں۔ جنہوں نے سرداروں کے خلاف قابل عزت لڑائی لڑی۔ لیکن سب پارٹیوں نے اگلے الیکشن میں ان کے سروں پہ بٹھا دیا۔ اسی المیہ کو بار بار دہرایا جانا دراصل منتخب اور پارٹی سربراہوں  کا یہ خوف ھے کہ کہیں طاقت نیچے تک کی عوامی سطح تک نہ چلی جائے۔ اسی کارخیر میں پاکستان کی سول حکومت اور ملٹری کا بھی پورا کردار شامل ھے۔ اس سب کے باوجود بھی ان سرداروں کے خلاف عوامی نفرت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ضرورت اس امر کی ھے کہ سیاسی پارٹیوں نے اپنے نئے سرے سے اپنے کردار کا تعین کرنا ھے کہ آیا وہ حالات کو اسی طرح چلا کر ہر دفعہ ذلیل و خوار ہونا چاہتی ہیں یا اپنی مضبوط صف بندی کر کے اپنے عام اور وفادار کارکنوں پر انحصار کرکے خود کو اور مجموعی طور پر پورے سیاسی ڈھانچے کو مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ پاکستان سمیت اس سرائیکی خطے اور ڈیرہ غازیخان و راجن پور اضلاع میں طبقاتی شعوری نفرت دن بہ دن اور لمحہ بہ لمحہ بڑھ رھی ھے۔ جو مستقبل میں اپنا راستہ تراش سکتی ھے۔ پاکستان میں عوام کی سیاست اور عوام کیلئے سیاست کرنے والوں کو عظیم عوامی بغاوت کی زیر زمیں چاپ کو سننا ہوگا۔ اور اس ادراک کی روشنی میں اپنی روش بدلنی ہوگی ۔ یہ وقت کا تقاضا بھی ہے، موجودہ نو جوان نسل کی گھٹن ختم کرنے، ان کے سیاسی ثقافتی حقوق حاصل کرنے کی آس امید کا ذریعہ بھی ہے اور سرداروں، جاگیرداروں ، منتخب کی ہر وقت کی بلیک میلنگ اور لوٹ کھسوٹ سے بچنے کا واحد راستہ بھی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1