مصنف: عبدالرؤف لُنڈ
سیلاب ! جو گزر تو گیا مگر جس کا عذاب جاری ھے۔ لیکن ہر عذاب کا خاتمہ اس نظام کے خاتمے سے مشروط ھے۔ مملکتِ خدادا پاکستان نے تین مہینے قبل سیلاب کی صورت میں اپنی تاریخ کا بد ترین عذاب دیکھا۔ ایسا عذاب کہ جس سے تقریباً ایک تہائی آبادی متاثر ہوئی۔ لیکن یہ ایک تہائی آبادی وہ آبادی ھے جو کہ براہ راست متاثر ہوئی لیکن اس سیلاب نے جو معاشی و معاشرتی اثرات مرتب کیے ان اثرات نے تو پچیس کروڑ ملکی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہاں البتہ اس سے کوئی متاثر نہیں ہوا تو پاکستان کا وہ کمینہ صفت اشرافیہ کا طبقہ ھے جو ملک پر حکمران ھے یا حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی اس کی حکمرانی ھے۔ لیکن اگر دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو تین ماہ قبل گزر جانے والا سیلاب ریاست کے حکمران بالادست طبقے اور ریاستی گماشتہ ملٹری اور سول بیوروکریسی ایک نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ 1917ء میں انقلاب روس کے سرخیل کامریڈ ولادی میر ایچ لینن نے کہا تھا کہ ” جنگیں اور قدرتی آفات ہولناک بھی ہوتی ہیں اور خوفناک منافع بخش بھی ۔ غریب اور محروم محنت کش طبقہ کیلئے یہ جنگیں اور قدرتی آفات ہولناک ہوتی ہیں جبکہ حکمران بالادست طبقے کیلئے منافع بخش ہوتی ہیں۔” اس وقت چونکہ جنگ کا موضوع زیر بحث نہیں ھے ۔ سو صرف سیلاب کی ہولناکی اور اس کے مثبت و منفی اثرات پر بات ہو رھی ھے تو ہمیں دیکھنا یہ ھے کہ سیلاب جیسی قدرتی آفت کس طرح ہولناک اور منافع بخش ھے؟ ۔ یہ درست ھے کہ سیلابوں کا آنا ایک قدرتی و فطرتی عمل ھے جو فطرت کے ارتقائی عمل اور قوانین کی ناگزیریت کا نتیجہ ہوتا ھے۔ مگر اس کو ہولناک بنانے کا جرم ریاست، حکمران بالادست طبقے اور ریاستی گماشتہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کے سر جاتا ھے۔ اور اس طبقے کے سیلاب کی ہولناکی کا سبب بننے والے جرائم کی فہرست میں ایٹمی بابکاری، دیو ہیکل صنعتی مشینری، دھواں چھوڑتی گاڑیاں، کوئلہ سے چلنے والے توانائی کے ذرائع، ائیر کنڈیشنڈ ، ٹمبر مافیا اور رئیل سٹیٹس جیسے بھیانک عوامل شامل ہیں۔ ذرا غور کریں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ھے کہ ان تمام جرائم میں پاکستان کے محروم غریب اور محنت کش طبقے کا بال برابر حصہ بھی نہیں بنتا ۔ لیکن پھر ان سب عوامل کے سارے کا سارا عذاب اس طبقے کو ھی جھیلنا پڑتا ھے۔ حکمران طبقے کی دولت میں اور اس دولت کے مسلسل اور لا امتناہی منافع کی ہوس نے ماحولیات اور موسموں کی وحشت میں اضافہ کردیا ھے۔
Read More: https://republicpolicy.com/pakistan-peoples-party-ka-janam-din/
گذشتہ سیلاب میں پانی کے بہاؤ کی جو شدت تھی اسے سیلابی ریلا کہا جاتا ھے۔ اس سیلابی ریلا کی بنیادی وجہ ٹمبر مافیا کے ہاتھوں قدرتی اور ریاست کی طرف سے لگائے گئے جنگلات کا صفایا کیا جانا ھے ۔ جنگلات نہ صرف زمینی کٹاؤ کو روکتے ہیں بلکہ ان کے پتے ، شاخیں اور تنے بارشوں کے پانی کو روک کر بارشی پانی کے تھوڑے وقت میں یعنی جلدازجلد مجتمع ہونے سے روکتے ہیں ۔ سیلاب بننے کی اس بڑی رکاوٹ کو بالادست طبقہ ریاست، حکومت اور خود محکمہ جنگلات کے آفیسرز کے گٹھ جوڑ سے صاف کر دیتا ھے ۔ سیلاب کی شدت اور نقصانات کے سب سے بڑے سبب بننے کی دوسری وجہ بارشوں کے پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستہ میں آنے والی زمینوں اور راستوں پر جگہ جگہ کے بڑے بڑے جاگیرداروں، سرمایہ داروں، منتخب نمائندوں اور ملک ریاض سمیت تمام رئیل سٹیٹس کے کاروباری مافیاز کی بدمعاشی اور قبضہ گیری ھے کہ جس کی وجہ سے سیلابی پانی اپنے قدرتی بہاو سے دریاؤں اور سمندر میں جانے کی بجائے غیر فطری بہاؤ کے ذریعہ ایسی ایسی جگہوں اور علاقوں کو برباد کرتا ھے کہ جہاں سیلاب کے پانی آنے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اب ذرا سیلاب سے کروڑوں برباد لوگوں کی حالتِ زار اور پھر ان سے نظریں چرانے کے غیر انسانی حکمران ناٹک کو دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں جس وقت لوگ سیلاب سے بے گھر ہو رھے تھے۔ جس وقت سیلاب متاثرہ علاقوں میں پانی کی فراوانی سے اتنا زمین بھی میسر نہیں تھی کہ لوگ سیلاب کی زد میں آ کے اپنے مرنے والوں کو دفن کر سکیں ۔ جس وقت لوگ بے بسی کے عالم میں اپنی زندگیوں سے زیادہ پیار کرنے والے پالتو جانوروں کو باندھنے والے رسوں سے اپنے ہاتھوں سیلابی ریلوں کے حوالے کر رھے تھے۔ جب سیلاب زدگان راتوں کے سناٹے میں خوف و ہراس میں بھاگ بھاگ کر اپنے جگر گوشوں سے بچھڑ رھے تھے اور بچھڑنے والوں کے لئے کسی ماتم کرنے کا وقت بھی نہیں تھا اسی حالت میں ریاست کے بالادست طبقے اور اداروں کے درمیان اقتدار کی نورا کشتی کھیلی جا رھی تھی ۔ مرکز میں عمران کو ہٹا کر شھباز شریف کو بٹھایا جا رہا تھا۔ تو عمران خان اپنے ہٹائے جانے کے خلاف خود کو واپس لانے کیلئے اپنے ان آقاؤں کو آنکھیں دکھا رہا تھا جو اسے کبھی لائے تھے اور اب نکال دیا تھا۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور گورنر کی تبدیلوں کے کھیل رچائے جا رھے تھے ۔ وفاق اور صوبے میں اکھاڑ پچھاڑ کو قانوں اور آئینی جواز فراھم کرنے کے عدالتی داؤ پیچ آزمائے جا رھے تھے۔ اور دنگل کی اسی دھول میں آرمی چیف ، جوائنٹ چیف آف آرمی سٹاف، آئی ایس آئی کے سربراہ کو ہٹانے بٹھانے کے ایسے ڈرامے رچائے جا رھے تھے کہ جیسے پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہو ۔ جیسے وہ معاشی طور ایسا مضبوط ملک ہو کہ اسے اپنے فیصلوں کیلئے کسی چین، امریکہ، افغانستان اور سعودی عرب جیسے ملکوں کی کسی قرضے اور مدد کی کوئی پرواہ بھی نہ ہو۔ حالات کے اسی دھارے میں لگے ہاتھوں اربابِ اقتدار بیرونی دنیا کے امیر ملکوں اور امیر ہستیوں کے آگے سیلاب زدگان کی بربادیوں کے تصاویری ماتم سے ان کے دل برمانے ، خون گرم کرنے اور جوش دلانے کے لئے ملاقاتوں اور اپوزیشن کے عمران خان ٹیلی تھونوں کے باندارانہ کرتب دکھاتے رھے ۔ جس کے طفیل ملکی اور غیر نشریاتی اداروں، سوشل میڈیا کے ذریعے سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے امدادی سامان ، نقد رقوم وغیرہ کے نچھاور کرنے کی خوشخبریاں سنائی گئیں۔ مگر عملاً سب کچھ ایک سراب ھے، دھوکہ ھے، بد دیانتی ھے، فریب ھے اور کمینگی ھے۔ جس کے نتیجہ میں سیلاب زدگان اسی طرح چھت، خوراک، لباس ، تعلیم، علاج اور روزگار سے محروم کہیں سردیوں سے تو کہیں بھوک اور بیماریوں سے سسک سسک کر مر رھے ہیں۔ اور اس لہو پیتے سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کی خباثت کے شکنجے اس قدر مضبوط ہیں کہ ان برباد خاک نشینوں کی کہیں خبر تک نشر نہیں ہوتی ۔
Read More: https://republicpolicy.com/fixing-the-food-insecurity-in-pakistan/
لیکن یہ سب کچھ ایسے نہیں چلے گا۔ اس نظام نے ہر عہد میں اپنی گرفت قائم کرنے کی شکل اور وارداتیں بدلی ہیں تو ہر عہد کے محروم و مظلوم طبقے نے اس طبقاتی نظام کے کرتوتوں کا پردہ چاک بھی کیا ھے۔ اپنی جدوجہد سے اس طبقاتی نظام پر لرزہ بھی طاری کیا ھے۔ کیا ہوا کہ آج محروم طبقہ طاقت میں نہیں ھے۔ لیکن حتمی طاقت اسی طبقے کے ہاتھ میں ھے۔ اس سماج کو چلانے کی سب شریانیوں میں موجود لہو کی حرکت اور سرگرمی محنت کش طبقے کے ہاتھوں کی مرہونِ منت ھے۔ یہ طبقہ جب چاھے ہاتھ کے اشارے سے ریلوے روک دے، جب چاھے بجلی بند کردے۔ جب چاھے فضا میں جہازوں کا داخلہ روک دے۔ اور جب چاھے سماج کی نبضیں بند کردے۔ بس اس طبقے کی ان چاہتوں کے وقت آنے کی دیر ھے۔ محنت کش طبقے کی طبقاتی جدوجہد کے میدان میں ہر قسم کی حکمرانہ تقسیم کو رد کر کے منظم لڑائی لڑنے کی دیر ھے۔ اور بس ایک طباقتی سماج کے خاتمے کے بعد سوشلسٹ سویرے کی دیر ھے ۔ پھر کچھ اندھیر نہیں ہوگا ۔ اس سماج کو چلانے والے ھی اس سماج کے مالک ہونگے۔ تب یہ سماج دکھ، درد، ذلت، اذیت، بے گھری، جہالت، لا علاجی، بیروزگاری، بدامنی، لوٹ مار جیسی ہر خباثت و کمینگی سے آزاد سماج ہوگا۔