ہدایت بلوچ کو خراجِ تحسین: جب فرض موت کی سزا بن جائے

[post-views]
[post-views]

طارق محمود اعوان

بلوچستان کے ضلع سوراب میں حالیہ مسلح حملے نے ایک تلخ حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے: بلوچستان میں طرزِ حکمرانی خطرناک حد تک غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (ریونیو) ہدایت بلوچ (بلیدی) کے سفاکانہ قتل اور پولیس اسٹیشن پر شدت پسندوں کے قبضے کو محض ایک افسوسناک واقعہ کہنا کافی نہیں، بلکہ یہ ایک گہرے ادارہ جاتی انہدام کی علامت ہے۔ ایک ایسے صوبے میں جہاں انتظامی افسران اور پولیس اہلکار دن دیہاڑے نشانہ بنائے جا رہے ہوں، وہاں حکومت کی بنیادیں وجودی بحران سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ ایسے ماحول میں جہاں ریاستی اہلکاروں کو دشمن تصور کیا جائے، سول سروس، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مؤثر طور پر کام نہیں کر سکتے۔ بلوچستان کے لیے یہ صرف ایک بحران نہیں، بلکہ ایک ادارہ جاتی ہنگامی صورتحال ہے۔

سوراب پر حملہ کسی عام دہشت گردی کا واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی طرف سے ریاستی انتظامی ڈھانچے پر ایک منظم اور سوچا سمجھا حملہ تھا۔ درجنوں مسلح شدت پسند جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر شہر میں داخل ہوئے، تجارتی مراکز بند کرائے، اور سرکاری دفاتر پر براہِ راست حملے کیے۔ پولیس اسٹیشن پر قبضہ کیا گیا، اسلحہ لوٹا گیا، سرکاری ریکارڈ تباہ کر دیا گیا، اور پوری عمارت کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ اس سے بھی زیادہ لرزہ خیز واقعہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو ہدایت بلوچ کا اپنے بچوں کے سامنے، سرکاری رہائش گاہ میں قتل تھا۔ ان واقعات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ موجودہ بلوچستان میں نہ تو پولیس اسٹیشن اور نہ ہی افسران کے گھر محفوظ ہیں۔

ایسے غیر محفوظ حالات میں کوئی افسر اپنے فرائض کس طرح انجام دے سکتا ہے؟ بلوچستان میں پہلے ہی سول سرونٹس شدید دباؤ کا شکار ہیں، اکثر اوقات انہیں بنیادی وسائل، مؤثر مواصلاتی ذرائع اور مناسب رہائش بھی میسر نہیں ہوتی۔ ریاستی اہلکاروں کے نشانہ بننے کا خدشہ اب ایک مفروضہ نہیں، بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت بن چکا ہے۔ جب اعلیٰ افسران کو ان کی سرکاری رہائش گاہوں میں قتل کیا جا سکتا ہے، تو تحصیل یا یونین کونسل کی سطح پر خدمات انجام دینے والے اہلکاروں کے لیے کیا حوصلہ باقی رہ جاتا ہے؟ سول سرونٹس کے حوصلے تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ ان واقعات کے نفسیاتی اثرات نہایت شدید ہیں۔ افسران اندرونِ بلوچستان تقرری قبول کرنے سے کترانے لگے ہیں، اور اپنی جانوں کے ساتھ ساتھ اپنے اہلِ خانہ کی سلامتی کے بارے میں بھی شدید خدشات رکھتے ہیں۔

بلوچستان میں پولیس کا نظام بھی گہرے بحران سے دوچار ہے۔ سوراب کے پولیس اسٹیشن پر حملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کمزور ڈھانچے کو عیاں کرتا ہے۔ پولیس نہ صرف اپنی عمارت کا دفاع نہ کر سکی، بلکہ عوام کے تحفظ کے لیے بھی بے بس نظر آئی۔ ان کے پاس ایسے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ مناسب اسلحہ ہے، نہ تربیت، نہ فوری مدد فراہم کرنے والا کوئی نظام۔ اکثر علاقوں میں پولیس اسٹیشن الگ تھلگ اور عملے کی کمی کا شکار ہوتے ہیں، جس کے باعث وہ شدت پسندوں کے لیے آسان ہدف بن جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں پولیس محض ایک علامتی موجودگی بن کر رہ گئی ہے—نظر تو آتی ہے، مگر مؤثر نہیں۔

حفاظتی اقدامات میں ناکامی نے حکمرانی کے عمل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔۔ اگر انتظامی افسران اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار محفوظ طریقے سے اپنی خدمات سرانجام نہ دے سکیں، تو عوامی سہولیات کا نظام مفلوج ہو جاتا ہے۔ زمین کے تنازعات حل نہیں ہو پاتے، ترقیاتی منصوبے رک جاتے ہیں، اور ہنگامی امدادی کارروائیاں ناممکن ہو جاتی ہیں۔ شدت پسندوں کے ممکنہ انتقام کے خوف سے عوام کی شرکت محدود ہو جاتی ہے اور مقامی تعاون ختم ہو جاتا ہے۔ریاست لوگوں کے مسائل سے دور ہوتی جاتی ہے۔ اور یوں ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے، جسے شدت پسند تنظیمیں اپنے اثر و رسوخ اور حتیٰ کہ جواز کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

صورتحال کو مزید پیچیدہ اس بات نے کر دیا ہے کہ ریاست کی طرف سے مربوط حکمتِ عملی کا شدید فقدان ہے۔ اکثر اوقات سول انتظامیہ اورسلامتی کے ادارے ایک دوسرے سے الگ تھلگ کام کرتے ہیں، اور کسی ہم آہنگ بحران مینجمنٹ حکمت عملی کی عدم موجودگی نے دونوں کو کمزور کر دیا ہے۔ اس کا واحد حل ایک متحدہ حکمت عملی ہے، جس میں سول اور عسکری ادارے مل کر انتظامی ڈھانچے اور افسران کو محفوظ بنانے کے لیے کام کریں۔ افسران کو تربیت یافتہ محافظ، بکتر بند گاڑیاں، اور محفوظ رہائش گاہیں فراہم کی جائیں۔ پولیس کو جدید اسلحہ، نگرانی کے آلات، اور فوری ردعمل کی صلاحیت رکھنے والی فورسز مہیا کی جائیں۔

حفاظتی اقدامات سے آگے بڑھ کر، حکومت کو ان اہلکاروں کے لیے واضح مراعاتی پیکیج متعارف کروانا ہو گا جو پرخطر علاقوں میں خدمات انجام دینے کے لیے تیار ہوں۔ ان مراعات میں ہارڈشپ الاؤنس، نفسیاتی مشاورت، اور کیریئر کی ترقی کے مواقع شامل ہونے چاہئیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ریاست کو بلوچستان کے عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا ہو گا۔ عوامی تعاون اور مقامی سطح پر جواز کے بغیر، صرف طاقت کے ذریعے نہ دیرپا امن قائم کیا جا سکتا ہے، نہ ہی انتظامی استحکام ممکن ہے۔

بلوچستان کی یہ صورتحال فوری توجہ کی متقاضی ہے—نہ صرف اسلام آباد سے، بلکہ پوری وفاقی اکائی سے۔ حکمرانی اُس وقت قائم رہ سکتی ہے جب سلامتی کا خاطر خواہ بندوبست ہو۔ اگر سول انتظامیہ کی یہ زبوں حالی جاری رہی، تو پورا صوبہ قانون سے عاری بکھراؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔ سوراب صرف ایک المیہ نہیں، بلکہ ایک انتباہ ہے۔ اگر بروقت اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے، تو مزید اضلاع ریاست کی گرفت سے نکل سکتے ہیں—نہ صرف علامتی طور پر، بلکہ عملی اور مستقل طور پر۔

آخر میں، سول سروس اور انتظامیہ ہدایت بلوچ (بلیدی) کی دلیرانہ خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ بلوچستان میں انتظامی اہلکاروں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos