جیسا کہ عدلیہ خود کو سیاسی کشمکش میں دھکیلتی ہوئی محسوس کرتی ہے، ایک سابق اعلیٰ جج اپنی ریٹائرمنٹ کے تین سال بعد دوبارہ خبروں کی سرخیوں میں آگئے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت ریٹائرڈ چیف جسٹس ثاقب نثار پر پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین کی حمایت کا الزام لگارہے ہیں۔ ثاقب نثار نے میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنا دفاع کیا۔انٹرویو میں، ثاقب نثار نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نے صرف ایک کیس کے علاوہ تمام معاملات میں “ہمیشہ عدالتوں سے ریلیف حاصل کیا”۔وہ فیصلے جو پی ٹی آئی کے حق میں تھے اُن کا دفاع کرتے ہوئے اُنہوں نے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ فیصلے قانون کی بنیاد پر کیے تھے۔
ثاقب نثار نے ان الزامات کو بھی مسترد کر دیا کہ ان کے ساتھ سابق آئی ایس آئی سربراہ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے ساز باز کی تھی۔ اُنہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ”وہ مجھ پر دباؤ ڈالنے والا کون تھا؟“سابقہ چیف جسٹس نے یہ بھی واضح کیا کہ انہوں نےعمران خان کو کبھی بھی’صادق اور امین‘ کا خطاب نہیں دیا، اور یہ کہ ان کا فیصلہ صرف پی ٹی آئی کے سربراہ کے خلاف لگائے گئے تین الگ الگ الزامات کے حوالے سے تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ اُنہوں نے اعتراف کیا کہ اُنہوں نے اپنے فیصلوں میں غلطیاں کی ہیں ، حالانکہ اُنہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کن فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اگرچہ ثاقب نثار خود نواز شریف کو نااہل قرار دینے والے پاناما گیٹ بنچ کا حصہ نہیں تھے، لیکن انہوں نے کئی اتنے ہی اہم فیصلے لکھے، جن میں آرٹیکل 62(1)(ایف) کے تحت نااہل ہونے والے سیاستدانوں پر تاحیات پابندی عائد کرنا بھی شامل ہے۔ پاناما کیس کے فیصلے کے بعدنواز شریف کو پارٹی سربراہی سے نااہل قرار دے دیا گیا۔
ثاقب نثارنےازخود نوٹس کے حوالے سے شہرت حاصل کی تھی، اور بطور چیف جسٹس، انہیں معمول کے مطابق ہسپتالوں اور جیلوں کے اچانک دورے کرنے اور ڈیم فنڈ شروع کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اپنے دور حکومت میں مسلم لیگ ن نے اپنے قائدین کے خلاف نااہلی، مجرمانہ سزائیں اور یہاں تک کہ توہین عدالت کی کارروائی بھی دیکھی۔ مسلم لیگ ن کو عدالتوں سے ریلیف نہ ملنے پر اُس دور میں شدید مایوسی ہوئی تھی ۔
مسلم لیگ ن کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ ثاقب نثار کے دور اقتدار میں صرف اُن کا احتساب کیا گیا ہے اور ایسے لگتا تھا کہ جیسے عدلیہ پارٹی کے خلاف صلیبی جنگ پر ہے۔
اگرچہ اُن کا یہ مطالبہ اور توقع کہ اب پی ٹی آئی کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا رہا ہے، انتہائی پریشانی کا باعث ہے، اگر ایسا ہے تو پھر ن لیگ بھی ان فیصلوں پر مکمل نظرثانی کی مستحق ہے جس سے ان کو گزشتہ سالوں میں سیاسی نقصان برداشت کرنا پڑا۔