از قلم: ایڈووکیٹ خادم حسین چکرانی
ایس سی او کا حالیہ اجلاس سفارتکاری کا ایک بڑا مظہر دکھائی دیتا ہے۔ جافر ایکسپریس، خضدار اور پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی یکساں اور بیک وقت مذمت اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ روس اور چین ایک ایسے عالمی حکمرانی کے نظام کو آگے بڑھا رہے ہیں جو یکطرفہ اور بالادست عالمی ڈھانچے کے برعکس ہے۔
دوسری جانب عالمی شمال اس تبدیلی کو روکنے کے لیے پوری قوت سے مزاحمت کر رہا ہے جو دنیا کو کثیر قطبی نظام کی طرف لے جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر یوکرین جنگ میں امریکہ اور مغربی اتحادیوں کی روس کے خلاف کھلی حمایت؛ ایران پر اسرائیلی حملے جن میں سائنس دانوں اور اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا گیا؛ یمن کے دارالحکومت صنعاء پر حملہ جس میں وزیرِ اعظم ناصر الرواحی سمیت کئی وزراء جاں بحق ہوئے؛ اور بھارت کو چار روزہ پاک-بھارت جنگ میں اسرائیل کی غیر مشروط حمایت—یہ سب اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ طاقتور ممالک اپنی بالادستی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ مزید برآں، امریکی بحری افواج کا وینیزویلا کے ساحل پر پہنچنا اور ایران پر دوبارہ حملے کے خدشات انہی پالیسیوں کا حصہ ہیں جن کے ذریعے عالمی کثیر قطبی نظام کو کمزور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
اس غیر یقینی عالمی صورتحال میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کی پوزیشن کیا ہے؟ روس اور چین کی مسلسل کوششوں کے باوجود بھارت نے (روس، بھارت، چین) تعاون میں شامل ہونے سے انکار کیا اور اپنے خطے کے پڑوسی ممالک سے خود کو الگ رکھا ہے۔ دوسری طرف، امریکہ کے ساتھ اس کی بڑھتی ہوئی قربت آئی ٹو یو ٹو اور کواڈ جیسے اتحادوں میں شمولیت نے اسے انڈو پیسفک خطے میں چین کے مقابلے کا ’’سیکورٹی فراہم کنندہ‘‘ بنا دیا ہے۔ اسی پس منظر میں بھارت نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا بھر میں سپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔
تاہم، بھارت کے خود پسندانہ رویے اور غیر تعاونی پالیسیوں کے باعث اس کا علاقائی اثر کمزور ہو گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی پر مبنی پالیسیاں، شمال مشرقی ریاستوں میں جبر، اور سکھ برادری پر مظالم اس کی آمریت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایس سی او اور برکس کے ساتھ بھارت کا نرم رویہ محض اس وجہ سے ہے کہ وہ 2026 کی برکس صدارت کے لیے چین اور روس کی حمایت چاہتا ہے، نہ کہ علاقائی تعاون اور امن کے لیے۔ پاکستان کے ساتھ مکالمہ کرنے سے انکار اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ بھارت کا سپر پاور بننے کا خواب حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے گا۔
پاکستان نے امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کا کردار ادا کیا ہے۔ چار روزہ جنگ میں اپنی مزاحمتی طاقت دکھا کر پاکستان نے ثابت کیا کہ اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ جنگ کے خاتمے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سفارتکاری سے جوڑنا نہ صرف امریکہ سے تعلقات کو مضبوط بنانے کا باعث بنا بلکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے مؤقف کو بھی عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ اسی طرح پاکستان اور چین کی قیادت کا کابل کا مشترکہ دورہ علاقائی امن اور روابط کے لیے اہم قدم تھا۔ حالیہ ایس سی او اجلاس میں وزیرِ اعظم پاکستان نے اعلان کیا کہ پاکستان روس کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے جو خطے کی ترقی اور خوشحالی میں معاون ہوں گے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ ٹویٹ: “لگتا ہے کہ ہم نے بھارت اور روس کو چین کے حوالے کر دیا ہے۔ امید ہے کہ ان کا ساتھ لمبا اور خوشحال ہوگا!” یہ بیان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شدید مایوسی اور چین-روس کی قیادت میں ابھرتے ہوئے کثیر قطبی نظام کے خلاف ان کی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔
اس صورتحال نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک اہم سوال کھڑا کر دیا ہے: کیا پاکستان طاقت کی اس کھینچا تانی میں توازن قائم رکھنے کے قابل رہے گا؟