غالب ؔکی اولین خصوصیت طرف گئی ادا اور جدت اسلوب بیان ہے لیکن طرفگی سے اپنے خیالات، جذبات یا مواد کو وہی خوش نمائی اور طرح طرح کی موزوں صورت میں پیش کرسکتا ہے جو اپنے مواد کی ماہیت سے تمام تر آگاہی اور واقفیت رکھتا ہو۔
مرزا غالب کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے ہیں اوربڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے ہیں۔ مرزا غالب کی شاعری قارئین کو خوبصورت شاعری کی مدد سے اپنے اندرونی احساسات کا اظہار کرنے دیتی ہے۔
شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
رشتۂ ہر شمع خار کسوت فانوس تھا
مشہد عاشق سے کوسوں تک جو اگتی ہے حنا
کس قدر یارب ہلاک حسرت پا بوس تھا
حاصل الفت نہ دیکھا جز شکست آرزو
دل بہ دل پیوستہ گویا یک لب افسوس تھا
کیا کہوں بیماریٔ غم کی فراغت کا بیاں
جو کہ کھایا خون دل بے منت کیموس تھا
بت پرستی ہے بہار نقش بند یہائے دہر
ہر صریر خامہ میں یک نالۂ ناقوس تھا
طبع کی واشد نے رنگ یک گلستاں گل کیا
یہ دل وابستہ گویا بیضۂ طاؤس تھا
کل اسدؔ کو ہم نے دیکھا گوشۂ غم خانہ میں
دست برسر سر بزانوئے دل مایوس تھا