Premium Content

شہید سے غازی تک (پارٹ-2)  

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: راجہ اعزاز عظیم

گیارہ اکتوبر 2013(بمطابق 6 ذالحج 1434)

 

گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گوجرخان کی وارڈ نمبر 8 کی اندرون آبادی گونج اٹھی۔ فجر کی اذان کے ساتھ ہی بدنام زمانہ منشیات فروش شیخ ہارون کے گھر پر ریڈ کیا ہی تھا کہ گولیوں کی بوچھاڑ نے مجھے شدید زخمی کر دیا اور اپنا پسٹل ہاتھ سے گر گیا۔شیخ ہارون مجھ پر سیدھے فائر کر رہا تھا اور میں دیوار کے ساتھ لگا ہوا خالی ہاتھ، انتہائی بےبسی میں اپنے اوپر دیوار میں لگنے والی بے شمار گولیوں سے اکھڑ کر گرنے والے سیمنٹ اور ریت سے گولیوں کی تعداد کا اندازہ کر رہا تھا۔ ایک رات قبل شریک حیات کی پھپھو انتقال کر گئی تھی اور رات فون پر اسکو اس بحث اور وعدہ کے ساتھ جہلم بھجوایا تھا کہ میں صبح سب سرکاری کام چھوڑ کر جنازہ پر گوجرخان سے سیدھا آؤں گا اور وه میرے ڈیڑھ ماہ کے بیٹے کو گود میں لیکر میت والے گھر میں میرا انتظار کر رہی تھی، جبکہ دوسری طرف میں صبح 6:30 بجے ٹی ایچ کیو ہسپتال گوجر خان کے ایمرجنسی وارڈ کے بیڈ پر جسم سے اُبلتے ہوۓ خون کے فواروں سے ہونے والی نقاہت اور ہسپتال میں سپرٹ کی مخصوص بو سے آہستہ آہستہ غنودگی میں جانے کے باوجود ذہنی طور پر اس پریشانی میں مبتلا تھا کہ مجھے گولیاں لگنے کی خبر میرے گھر والوں تک نہ پہنچے۔ بحرکیف میرے جوانوں نے شیخ ہارون کا ڈٹ کر مقابلہ کیا،جس میں وه گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو کر منشیات کی بھاری كیپ کے ساتھ نیم مردہ حالت میں گرفتار ہوا۔ (بعدازاں شیخ ہارون سال2021 میں اسی طرح کے پولیس مقابلے میں پار ہوا)۔ مجھے شدید زخمی حالت میں ٹی ایچ کیو گوجرخان سے ڈی ایچ کیو ہسپتال راولپنڈی پہنچایا گیا۔ جہاں مجھے ہنگامی طور پر ایک کے بعد ایک کر کے خون کے 4 یونٹ لگائے گئے۔تاہم ڈاکٹرز کی محنت، والدین کی دعاؤں اور سب سے بڑھ کر اللّه تعالی کی ذات نے دوسری زندگی دی جسكا میں بہت شکر گزار ہوں۔ 

یہ تین واقعات ضلع راولپنڈی کی تحصیل کلر سیداں کے ایک چھوٹے سے گاؤں ”بهكڑال“ کے ایک مڈل کلاس پولیس گھرانے کے ہیں۔ اپنے علاقہ کے فوجی خاندانوں کی قربانیوں پر لکھنا شروع کرتا تو صفحے اور سیاہی کم پڑ جاتی۔ قصہ مختصر 19 رمضان المبارک 1964 کو میرے دادا جان، راجہ بشیر احمد سب انسپکٹر صوبہ بلوچستان میں شہید ہوۓ جنکی قبر سرکاری طور پر کوئٹہ میں تیار ہو چکی تھی مگر آفرین ہے میرے بوڑھے پردادا راجہ نعمت اللہ کے حوصلے کو، جو خود کوئٹہ جا کر سرکاری ٹرک کے ذریعے 35 سال کے جوان شہید بیٹے کی میت بهكڑال واپس لے کر آئے اور پھر ٹھیک 7 سال کے بعد اسی بوڑھے شخص کا دوسرا سب سے چھوٹا بیٹا راجہ منور حسین سب انسپکٹر پنجاب پولیس راولپنڈی ریجن سے رضا کارانہ طور پر بنگلہ دیش میں تعیناتی کے دوران 1971 میں پاک ہندوستان جنگ لڑتے ہوۓ دشمن ملک میں 2 سال کی جنگی قید میں چلا گیا۔ بعد ازاں راجہ بشیر احمد شہید کا پوتا اور پاک فوج کے کپتان(ر)راجہ یوسف کا نواسہ یعنی کہ راقم 2013 میں گوجرخان میں خود پولیس مقابلہ میں شدید زخمی ہوا ۔

شہید سے غازی تک کا یہ سفر 60 برس پر محیط ھے۔اس سفر میں خواتین خانہ کا حوصلہ قابل تعریف ہے۔ جنہوں نے شہید سے غازی کے اس سفر میں زمانے کی تمام مشکلوں میں بھی حوصلہ رکھا اور زندگی میں آنے والے طوفانوں میں چٹان بن کر کھڑی ہوئی اور ساتھ ساتھ گھریلو ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھایا ۔شہید سے غازی کے اس سفر میں کوئی شدید سرکاری مجبورياں یا دباؤ بھی ہرگز نہ تھا بلکہ یہ تو عشق، جنون، ہمت، بہادری، ثابت قدمی اور ڈٹ کر کھڑے ہو جانےکی بازی تھی جسکو دادا جان نے خود منتخب کیا تھا اور آخری وقت تک ہتھیار ڈالنے کے بجاے لڑ مرنے کا فیصلہ کرتے ہوۓ اپنی ”جان“ تو دے دی مگر اپنی ”آن“ کو رکھ لیا۔ گرتے ہوۓ مکان کی چھت کے نیچے سر رکھنا آسان کام نہیں ہے اور اس کی زندہ مثال دادا جان کے چھوٹے بھائی راجہ منور نے1971 میں بطور سب انسپکٹر راولپنڈی ریجن پولیس کے دربار میں اس وقت بنگلہ دیش جانے کا چیلنج رضا کارانہ طور پر خود قبول کر کے قائم کی جب تمام افسران بنگلادیش کے مخدوش اور بدترین خانہ جنگی حالات کی وجہ سے دربار میں کنی كترا رہے تھے۔ جبکہ اس وقت انکے اپنے گھر کے حالات یہ تھے کہ گھر میں ضعیف والدین، بیوہ بهابھیاں اور یتیم بچوں کے آخری کفیل خود تھے اور غربت و افلاس نے گھر پر ڈیرے ڈالے ہوۓ تھے جبکہ خاکسار نے باوجود اس بات کے جانتے ہوۓ کہ شیخ ہارون گوجرخان میں قبل ازیں بھی بہت سے پولیس افسران کو گولیوں اور چاقو سے زخمی کر چکا ہے اور پولیس افسران اسکے گھر پر ریڈ کرنے سے کتراتے ہیں، اسکو نکیل ڈالنے کے لیے صبح کی روشنی پھوٹنے سے پہلے اپنی ٹیم کے ساتھ چل نکلا اور گھر کے اندر سب سے پہلے خود داخل ہوا اور بعدازاں خود بھی شدید زخمی ہوا اور اسکو بھی منشیات کی كهیپ کے ساتھ نیم مردہ حالت میں گرفتار کیا۔

دوستو! بحری جہاز ہمیشہ سے سمندر کنارے بندرگاہوں پر محفوظ ہوتے ہیں مگر بحری جہاز بندرگاہ پر کھڑے ہونے کے لیے نہیں بنائے جاتے بلکہ انہوں نے گہرے پانی اور سمندری طوفان کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح زندگی میں رسک اور خطرات کے خوف سے بھاگ کر چھپا نہیں جا سکتا۔ آپ پولیس کی نوکری صرف اچھے وقت کے لیے نہیں کرتے بلکہ یہ بھی ہر وقت ذہن میں ہوتا ہے کہ مشکل وقت اور فیصلے بھی آتے ہیں۔ جن میں مشکل فیصلوں کا وزن بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ بسا اوقات بہت سے مشکل وقت اور آنے والے وقت کی پریشانی کا ادراک ہونے کے باوجود آپکو بہت سے مشکل فیصلوں کا وزن اس لیے بھی اٹھانا پڑتا ہے کہ آپ نے خود کو اکیلے میں وفاداری کے آئینے میں دیکھنا اور جرات کے ترازو میں تولنا بھی ہوتا ہے اور الحمدوللہ یہ پیمانے میرے خاندان کو نسل در نسل صاف ضمیر اور خمیر کے ساتھ وراثت میں بھرے ہوۓ ملے ہیں۔ پنجاب پولیس میں ایسے بہت سے افسران اور جوانوں کی مثالیں موجود ہیں جو مشکل وقت میں ثابت قدم اور ڈٹ کر کھڑے رہے۔

وقت کی یہ خوبی ھے کہ اچھا یا برا بحرحال گزر ہی جاتا ہے۔ اپنی مختصر سی 15سالہ سروس میں بہت سے نشیب و فراز سے گزرا ہوں اور راولپنڈی کے مختلف تھانہ جات میں بطور تفتیشی آفیسر اور ایس ایچ او کام کیا ھے اس دوران بم دھماکے کے زخمیوں اور ٹکڑے ٹکڑے ہوئی لاشوں سے لے کر، نالے سے نکلی ہوئی بوسیدہ لاشوں کو اٹھانے تک۔ پولیس ناکوں پر اپنے ساتھیوں اور جوانوں کو زخمی اور شہادت کی حالت میں اٹھانے سے ليكر انکو اپنا خون دینے تک ،شہید ساتھیوں کا بلا خوف و خطر خود مدعی بننے سے لے کر، انکو لحد میں اتارنے تک اور پھر سامنے نظر آنے والے خطرات کو مول کر شہادتوں کا حساب چکتا کرنے تک،واردات کے دوران ریپ اور قتل کرنے والےظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے سے لیکر منشیات فروشوں کو نکیل ڈالنے تک،اندھے قتلوں کو کھوج لینے سے لیكر سماج کے ناسوروں کا آپریشن کرنے تک۔مختصر یہ کہ خاک و خون کے اس سفر میں میرے خاندان نے الحمدللہ اپنا خون دے کر اور سماج دشمن کا خون لیکر اس محکمہ کا قرض ادا کرنے کی ادنٰی سی کوشش ضرور کی ہے اور حاصل وصول ہمیشہ اپنی خود داری ،عزت نفس اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کے عزت و وقار کا اضافہ ہی رہا۔ اس دوران ہونے والی تمام غلطیاں، ناكامیاں، سستی، کاہلی، کوتاہیاں اور نادانیاں میری اپنی ذات کی کمزوری کی وجہ سے ہوئی ہیں، جبكہ تمام کامیابیاں، کامرانیاں اور عروج میرے ساتھ کام کرنے والی بہادر سپاہ کی وجہ سے حاصل ہوئی ہیں۔ ناکامی اور کامیابی کے اس ملے جلے سفر میں صرف نیک نیتی، خلوص اور محکمانہ وفاداری ہی میرا حاصل وصول رہا ہے، جسکے لیے اپنے والدین، بہن بھائی اور اولاد کی جان و مال کی پرواہ نہ کی ھے۔ چاند رات، عید، شب برات،گرمی، سردی، بہار کے لطف کو چھوڑ کر اپنے محکمہ کے لیے کام کیا۔ لوگوں کی باتیں، بے جا تنقید، تبصرے اور شکایات کو برداشت کیا۔ اپنے بچوں کی معصوم شرارتوں کے لیے وقت نہیں نکال سکا۔ رات کی نیند کو بتدریج کم کر کے صبح چند گھنٹےنیند تک آ گیا۔ مگر دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی محکمہ پولیس نے میرے خاندان کی شان بنائی ہے اور اسی محکمہ نے عزت اور روزگار دیا۔ آج بھی اگر میرے محکمہ کو میری ضرورت ہوئی تو تمام مصلحتوں سے بالا ہو کر بلند و بانگ دعوں سے ہٹ کرخاموشی مگر مظبوطی سے اگلے محاذ پر نہ صرف کھڑا ہونگا بلکہ کھڑا ہوتا ہوا نظر بھی آونگا۔

 آج 11 سال کے بعد 2024 میں محکمہ پنجاب پولیس کے سربراہ انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور صاحب نے اس بہادری،وفاداری اور قربانی کے اعتراف میں خاکسار کو”پولیس غازی“کے اعزاز سے سرکاری طور پر نواز کر مزید حوصلہ بڑھایا ہے اور ساتھ 2 لاکھ کا چیک بطور انعام بھی دیا ہے۔ الحمدللہ پولیس شہید اور پولیس غازی کا پوتا بھی آج ”پولیس غازی“ ہے، جسکا نام انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب کے دفتر میں غازیوں کے نام سے منسوب کی گئی دیوار پر لکھا گیا ہے۔ اس سے بڑھ کر اعزاز کے لیے اور کیا اعزاز ہو سکتا ہے۔؟ آج غازی اعزاز عظیم اپنا یہ اعزاز پنجاب پولیس کے ”شہداء“ کے نام کرتا ہے اور حسب سابق انعام میں دی ہوئی رقم اپنی خوشی سے ”شہدائے پنجاب پولیس“ کے خاندانوں کو انتہائی عقیدت سے ہدیہ کر رہا ہے۔ زندگی میں اس سے قبل سال 2008 میں بھی دوران ڈکیتی مزاحمت پر مجھے ڈکیتوں سے گولیاں لگی ہیں مگر 11 اکتوبر 2013 کو سرکاری فرائض کی انجام دہی کے دوران لگنے والی منشیات فروش کی گولیاں آج بہت تسکین، مزہ اور سواد دے رہی ہیں۔گولیاں لگنے کے بعد آپریشن در آپریشن ہونے سے جسم پر پڑنے والے بدنما داغ آج خود کو بہت بھلے محسوس ہو رہے ہیں ۔آج معلوم ہو رہا ہے کہ دیر سے ہی سہی مگر اچھے کام کی تعریف کتنا حوصلہ بڑھا دیتی ہے اور جوان کا سینہ کتنا چوڑا ہو جاتا ہے۔میں آج اپنے تمام سینئر افسران اور بالخصوص اپنے ساتھ کام کرنے اور ساتھ کھڑے ہونے والی تمام سپاہ کا شکر گزار ہوں۔جنہوں نے میری راہنمائی کی اور ہر مشکل میں میرا ساتھ دے کر میرا حوصلہ بڑھایا۔ آج اس خوشی اور سرشاری کے خاص موقع پر اپنے آپ سے ایک عہد بھی کرتا ہوں کہ اس نوکری کا حصہ رہوں یا نہ رہوں لیکن اپنے پاکستان کے لیے کسی بھی قربانی سے پیچھے نہ ہٹوں گا۔رات کے اس آخری پہر میں، میری کاتب قدرت اور کاتب تقدیر سے انتہائی عاجزی سے دعا ہے کہ جو زندگی گزر گئی ہے اس پر تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور جو زندگی باقی ہے اس میں اپنی تمام بشری کوتاہیاں اور غلطیوں پر تیری رحمت کا طلبگار ہوں۔اے میرے مالک تو اس ملک پاکستان کو ہمیشہ آباد رکھنا اور مجھ پر اور میری نسلوں پر اپنا خصوصی فضل وکرم کرتے ہوۓ مزید ہمت دے کہ اپنے خاندان ،محکمہ پولیس یا کسی بھی میدان میں خاص طور پر پاکستان کی نیک نامی کا باعث بنوں اور وطن کی خاطر کسی بھی وقت قربانی کی ضرورت پڑے تو اگلی صف میں ثابت قدم اور ڈٹ کر کھڑا ہونے کی ہمّت اور توفیق دے۔ آمین

میں ڈرا نہیں ،میں دبا نہیں
میں جھکا نہیں ،میں بکا نہیں
جسے میں نے تم سے کہا نہیں
جسے تم نے مجھ سے سنا نہیں

میرا شہر مجھ پہ گواہ ہے
کہ ہر ایک عہد سیاہ میں
وہ چراغ راہ وفا ہوں میں
کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos