Premium Content

شہید سے غازی تک 

Print Friendly, PDF & Email

تحریر:    راجہ اعزاز عظیم

گھاٹے جھیلنے پیندے نے
جے ہوئے شوق وفاواں دا

تین فروری 1964(بمطابق 19 رمضان 1383ھ )  

گولیوں کی تڑتڑاھٹ سے قلات کے سنگلاخ پہاڑ گونج رہے تھے۔ شر پسند ملک دشمن عناصر بلوچستان میں ترقی برداشت نہیں کر پا رہے تھے اور جهلاواں سب ڈویژن میں سے گزرتی سہرونہ روڈ کو بننے سے طاقت کے زور پر روک رھے تھے۔ جوان سب انسپکٹر ایس ایچ او رمضان کے روزہ کی حالت میں انتہائی کم وسائل کے باوجود حکومت بلوچستان کے احکامات پر عمل درآمد انتہائی ہمت اور بڑے حوصلے سے کروا رہا تھا اور وه اپنے جوانوں کے ساتھ سر دھڑ کی بازی لگا کر اپنے سے کئی گنا زیادہ تعداد میں مسلح ملک دشمن عناصر سے ڈٹ کر لڑ بھی رہا تھا اور اپنی حفاظت اور ذمہ داری میں موجود سول لوگوں کی جان بھی بچا رہا تھا۔15 سرکاری لاٹھیاں،2 عدد 3ناٹ3 رائفل ،ایک چرخی دار ریوالور 25/30 گولياں اور بس۔۔۔۔کراس فائرنگ کے دوران دونوں فریق ایک دوسرے کو حالات کی سنگینی سے بارہا بلند آواز آگاہ کرتے ہوئے اسلحہ پھینک کر سرنڈر کر دینے کا کہہ رہے تھے مگر پیچھے ہٹنے کو کوئی بھی تیار نہ تھا۔

فرض کی راہ میں ایک کے بعد ایک پولیس کا جوان زخمی اور شہید ہوتا گیا،اسلحہ بتدریج ختم ہوتا جا رہا تھا، مگر مضبوط اعصاب رکھنے والا راجپوت خون کسی طور پر بھی ہتھیار ڈالنے کو تیار نہ تھا اور وه کم سے کم نقصان پر اکتفا کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی جان کو بچاناچاہتا تھا۔ بلوچستان کے حالات اور ماحول کو وه جانتا تھا اور وه یہ بھی سمجھتا تھا کہ وقتی طور پر اپنی جان بچانے کے لیے ہتھیار ڈالنے کا صاف مطلب کچھ دیر کے بعد تمام کارواں کو 100 فیصد اذیت ناک موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ اپنی حفاظت میں موجود تمام سول ادارے کے لوگوں کو ایک محفوظ پہاڑی پر منتقل کر کے اپنا فرض تو پورا کر دیا مگر اس دوران اسکے 8 جوان شہید جبکہ بقایا 13 جوان شدید زخمی ھو چکے تھے۔ زخمی ساتھیوں کی مدد کے لیے واپس پلٹا تو ایک بڑے پتھر کی اوٹ میں سے اچانک گولیوں کی ایک بوچھاڑ نے 35 سال کے پھرتیلے جوان ایس ایچ او کا سینہ چھلنی کر دیا، وقت کچھ ساعت کے لیے رک سا گیا، گرم خون کے فوارے پولیس وردی میں سے نکل کر مٹی میں جزب ہو رہے تھے اور راجہ بشیر احمد سب انسپکٹر گھات لگائے بیٹھے مسلح ملک دشمن عناصر کی شدید فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہو گیا۔ ہزاروں کوس دور پنجاب کے ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں ”بهكڑال“ کے ایک چھوٹے کچے گھر کے آنگن میں شہید کے بوڑھے ماں باپ،جوان بیوی اور اس کا 5 سال کا بیٹا(میرے والد) بلکل بے خبر، دنیا کے کاموں میں مصروف تھے۔ انکے لیے تو قیامت تب ہی آنی ہے جب یہ خبر کچھ دن کے بعد ان تک پہنچے گی۔

سولہ دسمبر1971( بمطابق 13 شوال 1391)

گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے تھانہ موہن گنج، بنگلہ دیش گونج رہا تھا۔ مکتی باہنی تحریک کے مسلح دستے ہر سو پھیل کر حملہ آور تھے۔21 سال کا نوجوان ایس ایچ او گزشتہ 17 دن سے تھانہ کے علاقے اور پھر تھانہ کی عمارت کے اندر تک محدود ہوگیا۔بعدازاں وائرلیس پر حکم ملا کہ فضائی حملہ سے بچنے کے لیے تھانہ کی بلڈنگ خالی کر دو۔آبادی سے دور جنگلوں میں گزرتے دس جوانوں کے ساتھ اسلحہ اور خوراک کی قلت کے باوجود، ہر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ”مكتی باہنی“ کے حملوں میں اپنے زخمی جوانوں کو سہارا دیتا، رات کے اندھیرے میں دھرتی ماں کے سینے میں تاریخ کے گمنام سرفروش شہیدوں کو دفناتا، بچ جانے والے ساتھیوں کے ساتھ میلوں پیدل اور کشتیوں پر ڈھاکا کی طرف سفر کرتارہا۔ وائرلیس کنٹرول پر تازہ دم کمک و اسلحہ کے آنے کی لا حاصل امید کے ساتھ مكتی باہنی اور ہندوستانی فوج سے دست بدست لڑتا بهڑتا آخرکار ایمونیشن ختم اور ”فال آف ڈھاکہ“ ہونے پر راجہ منور حسین، ایس ایچ او تھانہ موہن گنج، ضلع میمن سنگھ 16 دسمبر 1971 کو اپنے تهانے موہن گنج سے لگ بھگ 200 کلو میٹر دور ”پولیس لائن راجڑ باغ“ میں ہندوستانی فوج کے میجر ورما کے ہاتھوں گرفتار ہو کر جنگی قیدی بن گیا تھا۔16 دسمبر سے 3 جنوری تک 18 دن راجڑ باغ پولیس لائن میں قید رہنے کے بعد بذریعہ اسٹیمر براستہ نارائین گنج اور فرید پور، ہندوستان منتقل کر دیا گیا۔ ہزاروں کوس دور پنجاب کے ضلع راولپنڈی کے ایک چھوٹے سے گاؤں بهكڑال میں بوڑھے ماں باپ، نوبیاہتا بیوی، شہید بھائی کی بیوہ، یتیم بھتیجے اپنے گھر کے اکلوتے ریڈیو کے بٹن دبا دبا کر جنگی قیدی کی خبر مسلسل 2 سال تک ایک انجانے خوف کے ساتھ تلاش کرتے رہے کہ گھر کا آخری بیٹا زندہ بھی ہے یا نہیں۔ آخر 10 جنوری 1974 کو ”گواليار کیمپ نمبر 60“ میں جوانی کے 2 سال ہندوستان میں 90 ہزار جنگی قیدیوں کے ساتھ جنگی قید کاٹنے کے بعد براستہ واہگہ بارڈر غازی بن کر گھر کو لوٹا۔ بعد اذاں محکمانہ ترقی کرتے ہوئے پنجاب کے مختلف اضلاع میں ایس ایس پی کے رینک پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے سال 2009 میں ریٹائر ہوئے اور اس وقت الحمدللہ اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں۔

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos