سال 2015 میں ’گرین ہینڈز ویلفیئر آرگنائزیشن‘ نے اپنی مدد آپ کے تحت شہر میں مختلف انداز سے شجرکاری کا آغازہ کیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس تنظیم کی جانب سے سے بالخصوص اسکولوں، کالجوں،جامعات مسجد، مدرسہ، امام بارگاہ، اور چرچ وغیرہ کی اراضی پر شجرکاری کی جاتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ متعلقہ ادارہ اسے اونرشپ دے کر درختوں کی دیکھ بھال کی ذمے داری نباہ سکیں۔ کیونکہ ایک پودا لگانا تو بہت آسان ہے لیکن اس کی دیکھ بھال بہت مشکل، طویل اور صبرطلب کام ہوتا ہے۔ اس تنظیم کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی پودا لگایا جائے وہ ایک مکمل درخت بن سکے خواہ وہ سایہ دار شجر ہو، گلدار درخت ہو یا پھر پھلدار درخت بن سکے۔
یہ سلسلہ جاری رہا اور سال 2019 کے اختتام پر کووڈ 19 کی عالمی وبا کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے اور لوگوں کی آمدورفت کم ہوئی تو اس وبا میں بھی شجرکاری کا عمل قدرے مختلف انداز میں جاری رہا۔ مساجد کے اطراف کی جگہوں پر شجرکاری کی گئی اور کوشش کی گئی کہ کسی طرح مسجد کے وضو خانے کا پانی اشجار کو سیراب کرنے میں استعمال کیا جائے۔
اس ضمن میں مسجد کے پانی سے چھوٹے چھوٹے شہری جنگل (اربن فاریسٹ) اگانے کی کوشش کی گئی تاکہ اس سے شہرکی آب وہوا کو کچھ بہتر کیا جائے۔ اس میں کوشش کی گئی کہ بالخصوص پرندوں کو راغب کیا جائے۔
پرندوں کا انتظار
ایک وقت تھا جب کراچی میں بلبل، مینا اور سبز طوطے دکھائی دیتے تھے جو اب تیزی سے غائب ہورہے ہیں۔ یہ کوشش کی گئی کہ کسی طرح پرندے لوٹ آئیں اور درختوں کو مسکن بنائیں۔ اسی لیے چھوٹے جنگلات پر کام کیا گیا۔
دوسری جانب کوشش کی گئی کہ شہر کی فضا جس میں کاربن اور دیگر مضر گیسیں بڑھ چکی ہیں، ان میں کچھ کمی کی جاسکے۔ اب گرین ہینڈز ویلفیئر کے کارکن شہر میں کئی چھوٹے جنگلات اگا چکے ہیں۔
ماحول دشمن پلاسٹک
پلاسٹک کی آلودگی اب ہمارے در پر دستک دے رہی ہے اور ہمارے لیے ایک سوہانِ روح بن چکی ہے۔ تنظیم کا ایک اور کام یہ ہے کہ پلاسٹک شاپر اور تھیلیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی، شجرکاری بڑھانے اور اس کی ضرورت کا شعور بھی عوام تک پہنچایا جائے۔
شہروز سراج نے بتایا ’آج سے 20 برس پہلے ہم کپڑے کا تھیلا استعمال کرتے تھے جو اب متروک ہوچکا ہے۔ کپڑے کا ایک تھیلا پورے مہینے ہمیں ایک مرتبہ استعمال ہونے والی درجنوں پلاسٹک تھیلیوں سے بچاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پلاسٹک ختم نہیں ہوتا اور ماحول کو شدید نقصان پہنچارہا ہے۔ یہ ہمارے کچرے کا غالب حصہ بن چکا ہے۔ ندی نالوں کو بند کررہا ہے اور دریاوسمندر میں جاکر آبی حیات میں موت بانٹ رہا ہے۔ پھر باریک پلاسٹک کے ذرات مائیکروپلاسٹک کی شکل میں ہماری غذا، فصلوں، مٹی، ہوا اور پانی میں گھل چکے ہیں۔‘
یہی وجہ ہے کہ تنظیم بچوں کو شعور دیتی ہے کہ دوبارہ کپڑے کے بیگ کا استعمال کیا جائے کیونکہ یہ ایک ماحول دوست عادت ہے۔ اسی تنظیم کی کوشش ہے کہ کراچی شہر میں بارش کے پانی کو ایسی خالی نشیبی جگہوں پر دھکیلا جائے جہاں سیم اور تھور نہ ہو تاکہ پانی وہاں دھیرے دھیرے جذب ہوکر زیرِ زمین پانی کی سطح (واٹر ٹیبل) کو بڑھا سکے۔
دوسری جانب تنظیم کی کوشش یہ ہے کہ اس شہر میں جو کارباری طبقہ ہے جو صنعتی عمل سےکاربن بڑھا رہا ہے، یا کسی فیکٹری اور کارخانے کے لیے درخت کی اشیا استعمال کررہا ہے، یا فضائی آلودگی میں اس کا کچھ حصہ ہے، ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ ساتھ دے کر ماحول کو نقصان کے ازالے کے لیے متبادل کام کریں۔ یعنی اگرکوئی کارخانہ، گتہ یا لکڑی استعمال کررہا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ ضرور کوئی پودا یا درخت ضرور لگائیں اور ایسی مثالی تنظیموں کی مدد ضرور کریں۔
عین انہی خطوط پر طلبا و طالبات میں ماحول دوستی کی تعلیم دے کر سبز فکرکو ان کے شعور کا حصہ بنایا جائے۔ حال ہی میں گرین ہینڈز نے سب دوست فاؤنڈیشن کے ساتھ ملکر چار دسمبر کو جنگلی حیات کے تحفظ کے دن پر بھی اورنگی ٹاؤن میں شجرکاری کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جامعہ کراچی سمیت کئی مساجد، اداروں اور اسکولوں میں کامیاب شجرکاری کی تقریبات رکھی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی شہر کوکروڑوں درختوں کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں ہم سب کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا