Premium Content

شعور کی عینک

Print Friendly, PDF & Email

ضحا بیٹی نہ صرف پیاری، چھوٹی اور لاڈلی ہے بلکہ بچوں میں سب سے چھوٹی بھی ہے۔ جہاں میں اسکی تربیت کا خاص خیال رکھتا ہوں وہیں میں اس سے بے پناہ محبت بھی رکھتا ہوں۔میں اسکی تربیت کا اس حد تک خیال رکھتا ہوں کہ یہ تعلیم سے بھی زیادہ اہم ہے۔ میں نے اسے ابھی سے  تربیت  دی ہے کہ بیٹا گندی اشیاء کو ہمیشہ ٹوکری میں ڈال دیا کرو۔  لیکن اب بد قسمتی سے   گھر میں جو بھی چیز نظر آئے، اس کو اٹھا کر ٹوکری میں ڈال دیتی ہے۔ اکثر چابیاں، کاغذ اور دوسری ضروری اشیاء وغیرہ  ہمیں وہاں سے ہی ملتی ہیں۔

مگر اس بار تو ضحا نے حد کردی۔ میرے چشموں  کو ہی اٹھا کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا، اور پھر ہم نے گھر والے ڈسٹ بین کو سٹریٹ میں پڑے بڑے ڈسٹ بین میں ڈال دیا اور اب پتہ نہیں کہ عینکیں پشاور کے کس کچرا کنڈی میں  پڑی ہوئی ہونگی یا کہیں اور پڑی ہوئی ہونگی۔

عینکیں ویسے اتنی قیمتی تو نہیں تھیں لیکن  گزشتہ چند سالوں سے ان عینکوں سے میں  دنیا کو شعور کی آنکھوں سے دیکھا تھا  اور اب جبکہ عینک نہیں ہے تو بہت عجیب لگتا ہے ۔ آج میں  گاڑی کو بھی خود نہیں چلا سکا اور دنیا اور اردگرد کی فضا بھی دھندلی سی نظر آرہی ہے۔ کچھ خاص نظر نہیں آرہا۔ ایسا لگتا ہے کہ میں ایک کنویں میں جی رہا ہوں یا ہر طرف ایک دیوار ہے اور اس سے میں آگے کچھ دیکھ نہیں سکتا۔

ارد گرد کے سماج کو  دیکھ  کر مجھے لگتا ہے کہ ہم بحیثیت معاشرہ عینک اور شعور کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر ایک اپنے کنویں میں بند ہے اور ایک خاص حد سے آگے نہیں دیکھ سکتا اور اگر کوئی ہمت کرکے کچھ دیکھ بھی لے تو لوگ اسکو پاگل سمجھتے ہیں ۔ کچھ لوگوں نے تو عینکیں بھی لگائی ہیں لیکن وہ بھی رنگ دار قسم کی ہے اور اپنی مرضی کی عینک اور رنگ  سے د نیا کو دیکھنا اور سمجھنا چا ہتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ دنیا کو ایک خاص زاویے اور نقطہ نظر سے  ہی دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔

 مجھے لگتا ہے کہ ان گلاسز  کے گم ہونے میں بھی ایک خیر ہے کیونکہ میں نے بھی گزشتہ چند سالوں سے دنیا کو ایک ہی عینک، رنگ اور زاویے سے دیکھا ہے اور شاید ابھی میں اس مقام پر پہنچ آیا ہو کہ نئے زاویے اور نئے نظر سے اردگرد کی دنیا کو دیکھ سکوں۔ اسلئے تو کہتے ہیں کہ بچے معصوم اور من کے سچے ہوتے ہیں۔ کاش کوئی معصوم سی بچی یا ایسے ہی بچوں کا کوئی ایک گروہ ہمارے معاشرے کو موجودہ عینک اور زاویے کے بغیر نہ صرف دیکھ سکیں بلکہ انکو تبدیل کرنے میں بھی اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔

جب تک ہم معاشرے کو شعور کی عینک سے نہیں دیکھیں گے ، ہمیں حقیقت کا ادراک نہیں ہو سکے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos