تحریر: ڈاکٹر محمد کلیم
آج کل ہر کوئی ایک بات کرتا نظر آتا ہے کہ اپنا شوق تلاش کرو اور پھر اس کو اپنا پیشہ بنا لو۔ یو ٹیوب پر اس موضوع پر آپ کو ہزاروں ویڈیو مل جائیں گی کہ اپنا شوق تلاش کرو۔ ہم کو اس بات پر اپنے دوست کا ایک قصہ یاد آ رہا ہے کہ ہمارے دوست عدیل صاحب بڑے معصوم واقع ہوئے تھے۔ ہم سے کوئی تین، چار سال عمر میں چھوٹے ہوں گے۔ میٹرک میں بد قسمتی سے سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوئے۔ ان کے والدین نے ہمارے ذمہ لگایا کہ ان کا کالج میں داخلہ کرا دو۔
ہم نے پورے شہر کے کالجوں میں درخواست ڈالی لیکن جناب عدیل صاحب کا کہیں میرٹ نہ بن سکا اور ان کا خواب تھا کہ وہ انجینئر بنیں۔ اس طرح دو مہینے گزر گئے اور کہیں داخلہ نہ ہوا۔ ایک دن ہم ان کے داخلہ کے سلسلے میں در بدر پھر رہے تھے کہ ہم کو ایک پرائیویٹ کامرس کالج نظر آیا اور ہم نے ان کا داخلہ وہاں کرا دیا جب کہ ان کو کامرس پڑھنے کا کوئی شوق نہیں تھا نہ ہی ان کے والدین اس شعبے سے واقف تھے۔ لیکن عدیل نے محنت کی اور ڈی کام میں ہائی فرسٹ ڈویژن لایا۔
پھر بی کام میں یونیورسٹی میں پوزیشن۔ آج وہ سی اے کر کے اپنے شعبے میں ماہر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اور آپ جس کو کامیابی سمجھتے ہیں آج ان کے پاس وہ تمام چیزیں موجود ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنا شوق تلاش کیا یا پھر اپنے شعبے میں شوق سے کام کیا اور دل لگا کر اس کو سمجھا اور آگے بڑھ گئے۔ اس طرح آپ کے سامنے بھی کئی مثالیں موجود ہوں گی۔ ذرا غور کریں اگر آپ نے اپنا شوق تلاش کرنا ہے تو بتائیں کیسے کریں گے۔
یہ بات درست ہے کہ کچھ کام کرتے ہوئے آپ کو زیادہ لطف آتا ہے اور وقت ٹھہر سا جاتا ہے۔ لیکن کیا اگر آپ اپنے پیشہ میں دلچسپی لیں تو ایسا نہیں ہو سکتا؟ ایک دفعہ ضرور غور کریں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں نوکری اور کاروبار کے مواقع کم اور لوگ زیادہ ہیں وہاں شوق کی تلاش کرانا عجب سا محسوس ہوتا ہے۔ یہ امیر ممالک کے لیے شاید درست ہو گا لیکن جہاں دو وقت کی روٹی نہیں ملتی وہاں شوق تلاش کرنا اور اس کو پھر پیشہ بنانا ایک مشکل نہیں بلکہ ناممکن سا کام لگتا ہے۔
جو اس کو قبول کر رہے ہیں وہ خود دیکھیں کہ وہ اپنے پیشہ میں شوق سے کام کر رہے ہیں یا پہلے پہل یہی کام انہوں نے مجبوری میں شروع کیا تھا۔ اگر اس لحاظ سے دیکھیں تو ہر اس بندے جس نے اپنا شوق تلاش کر لیا ہے اس کو تو کامیاب ہونا لازم ہو گا۔ اگلے دن میں ایک مشہور اداکارہ کا انٹرویو سن رہا تھا جن کو پینٹر بننے کا بہت شوق تھا اور جناب انہوں نے نیشنل اسکول آف آرٹ سے پینٹنگ سیکھی اور اس کو کیا بھی سہی لیکن آج اداکارہ کے طور پر کام کر رہی ہیں اور اپنا شوق بھول بیٹھی ہیں۔
جب ان سے سوال کیا وہ اب کبھی دوبارہ پینٹنگ کرنے کا سوچیں گی تو انہوں نے جواب دیا کہ اداکاری میں ان کو وہی لطف آتا ہے جو پینٹنگ / مصوری میں آتا تھا یعنی کہ شوق بدل بھی سکتا ہے اور شوق پیدا بھی کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان جس میں زیادہ تر لوگ ویسے کام سے جی چراتے ہیں ان میں مغربی فکر شوق کی تلاش کریں ان کو مزید نکما کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرے گا اور اگر اس اصول پر چلیں تو پھر ہر محبت کی شادی کو کامیاب ہونا چاہیے کیونکہ وہ شوق اور پسند سے کی جاتی ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے کیونکہ جب آپ نبھا کرتے ہیں تو انسان کی اصلیت معلوم ہوتی ہے اور یہی حال آپ کے شوق کا بھی ہے۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.