اگر معروف امریکی مصنف چارلس بکاؤسکی نے پاکستانی عوامی شعبے میں ملازمت اختیار کی ہوتی، تو وہ محض یہ نہ کہتے کہ ’’میں نے بھوک کا انتخاب کیا ہے،‘‘ بلکہ شاید یہ لکھتے: ’’یہاں میری خودی، عزتِ نفس اور فکری آزادی کو بھوکا مار دیا گیا ہے۔‘‘ ایک ایسا ادارہ جاتی ماحول جہاں بدعنوانی روایت، نااہلی قابلیت، اور اطاعت کو عقل و دانش پر فوقیت حاصل ہو، وہاں ایک حساس، تخلیقی اور نڈر ذہن کیسے پنپ سکتا ہے؟
پاکستان کا عوامی شعبہ صرف انتظامی مسائل کا شکار نہیں بلکہ ایک ایسا ساختیاتی نظام بن چکا ہے جو تخلیق، دیانت، اور فکری آزادی جیسے اوصاف کو دشمن سمجھتا ہے۔ یہ نظام افراد کی ذہنی ساخت کو یوں مسخ کرتا ہے کہ وہ اپنے اصولوں سے دستبردار ہو کر ایک بے جان مشین کا پرزہ بن جاتے ہیں۔
پاکستانی سول سروس میں داخل ہونے والے بہت سے نوجوان اعلیٰ تعلیمی قابلیت، خلوصِ نیت، اور وطن سے محبت کے جذبے کے ساتھ آتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس نظام کا حصہ بن کر تبدیلی لائیں گے، اصلاحات کریں گے، اور قوم کی خدمت کریں گے۔ مگر جلد ہی وہ ایک ایسی حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں جو ان کے تمام خوابوں کو چکناچور کر دیتی ہے۔
یہاں قانون، ضابطہ، اور اخلاقیات کی حیثیت محض کتابی تصورات کی سی ہے۔ فیصلے اس بنیاد پر نہیں ہوتے کہ کون سا عمل درست ہے، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ حکم کس نے دیا ہے۔ جو افسر قانون کی پاسداری کرتا ہے، اُسے کم فہم اور سادہ لوح سمجھا جاتا ہے۔ جو حق گوئی کی جرأت کرے، اُسے ’’مسئلہ پیدا کرنے والا‘‘ قرار دے کر یا تو غیر متعلقہ عہدے پر لگا دیا جاتا ہے یا مسلسل تبادلوں کی زد میں رکھا جاتا ہے۔
ایک تخلیقی ذہن کے لیے سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کی سوچ کو دبایا جائے، اُس کے سوالات کو بغاوت سمجھا جائے، اور اُس کی جدت پسندی کو خطرہ تصور کیا جائے۔ پاکستانی عوامی ادارے ایسے ہی اذہان کو ’’غیر موزوں‘‘ یا ’’نارمل سے ہٹ کر‘‘ قرار دے کر نظام سے باہر دھکیل دیتے ہیں۔
یہ نظام اصل میں ایک ذہنی قید خانہ ہے، جہاں ہر فرد سے صرف اطاعت درکار ہے۔ ’’کیوں‘‘ پوچھنے کی اجازت نہیں، صرف ’’جی ہاں‘‘ سننے کی توقع کی جاتی ہے۔ اصلاحات کی بات کرنا بے وقت کی راگنی شمار ہوتی ہے، اور نئے خیالات کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ایک عام افسر کی زندگی کا مرکزی محور ترقی، تبادلے، اور اثر و رسوخ کی رسہ کشی بن جاتی ہے۔ دیانت دار اور بااصول افراد کو دانستہ طور پر ایسے فرائض سونپے جاتے ہیں جن کی کوئی عملی افادیت نہیں ہوتی۔ اُن کی کارکردگی کو نظرانداز کیا جاتا ہے، اور اُن کی سماجی حیثیت محدود کر دی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک وہ یا تو خود نظام سے سمجھوتہ کر کے ایک مشینی پرزہ بن جائیں، یا مکمل طور پر پسپا ہو کر ذہنی دباؤ، مایوسی یا بے عملی کی کیفیت میں چلے جائیں۔
اس نظام میں رہ کر آپ کو سکھایا جاتا ہے کہ ناانصافی پر مسکرانا سیکھیں، جھوٹ کو سچ بنانے کی صلاحیت پیدا کریں، اور اُن احکامات پر عمل کریں جو ضمیر کے خلاف ہوں۔ وقت کے ساتھ یہ رویہ شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ جو شخص اپنے اصولوں پر قائم رہنے کی کوشش کرے، وہ نہ صرف پیشہ ورانہ طور پر نقصان اٹھاتا ہے، بلکہ اپنی شناخت، خواب، اور مقصدِ حیات کو بھی کھو بیٹھتا ہے۔
اس پورے عمل میں سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ نظام کا رویہ واضح پیغام دیتا ہے: اگر تمہیں بقا درکار ہے تو سمجھوتہ کرو، اگر ترقی چاہتے ہو تو اطاعت کرو، اگر عزت چاہتے ہو تو خود کو فراموش کر دو۔ بصورتِ دیگر، نظام تمہیں پسپا کرے گا، تمہاری آواز دبائے گا، اور آخرکار تمہیں ایسے مقام پر لا کھڑا کرے گا جہاں تم صرف زندہ رہو گے—جیو گے نہیں۔
پاکستان میں باصلاحیت، تخلیقی اور باشعور نوجوانوں کو اس نظام کا حصہ بننے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ انہیں اپنے علم، صلاحیت اور جذبے کو ایسے اداروں میں صرف نہیں کرنا چاہیے جہاں ان کی عزتِ نفس کو کچلا جائے، ان کی سوچ کو محدود کیا جائے، اور ان کے اصولوں کو جرم سمجھا جائے۔
ایسا کرنا بظاہر غیر یقینی اور غیر محفوظ راستہ ہو سکتا ہے، لیکن یہی وہ راہ ہے جو انسان کو اپنی فکری آزادی، تخلیقی توانائی اور باوقار زندگی عطا کرتی ہے۔ جو نوجوان اس حقیقت کو سمجھ جاتے ہیں، وہ نہ صرف اپنی ذات کو بچا لیتے ہیں بلکہ سماج میں وہ مثبت تبدیلی بھی لا سکتے ہیں جس کا خواب انہوں نے سول سروس میں شمولیت سے پہلے دیکھا تھا۔
یہ کہنا کہ پاکستان کے عوامی اداروں کو اصلاح کی ضرورت نہیں، خودفریبی ہے۔ مگر یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ موجودہ ادارہ جاتی ڈھانچہ اس قدر فرسودہ ہو چکا ہے کہ اصلاحات کی کوششیں صرف وہی لوگ کامیابی سے کر سکتے ہیں جنہیں نظام سے بالا طاقت حاصل ہو۔ بصورتِ دیگر، جذبہ ہی محرومی کی سب سے بڑی سزا بن جاتا ہے۔
چارلس بکاؤسکی نے کہا تھا: “جو چیز تم سے محبت کرتی ہو اسے تلاش کرو اور اسے اپنے لیے موت بننے دو۔” لیکن پاکستان کے عوامی شعبے میں محبت، جذبہ اور اصول مارے نہیں جاتے-وہ آہستہ آہستہ مسخ کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ ان کا وجود ہی مٹ جاتا ہے۔
تخلیقی اذہان کو اس تقدیر سے بچنا چاہیے، اور ایسے راستوں کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں فکری آزادی، تخلیقی اظہار اور اصول پسندی کو سزا نہیں، انعام ملے۔ یہی پاکستان کی فکری بقا اور ارتقاء کی ضمانت ہے۔