ارشد محمود اعوان
ہر پاکستانی نوجوان کو خود سے ایک اہم سوال ضرور پوچھنا چاہیے: کیا میرے پاس ایسی مہارتیں ہیں جو مجھے روزگار دلوا سکیں؟ آج کی تیز رفتار اور بدلتی ہوئی عالمی معیشت میں، یہ سوال پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو چکا ہے۔ دنیا اب صرف ڈگریوں پر نہیں بلکہ عملی مہارتوں پر انحصار کر رہی ہے، اور پاکستانی نوجوانوں کو اس تبدیلی کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔
وہ دور گزر چکا ہے جب صرف ڈگری حاصل کرنے سے ملازمت مل جایا کرتی تھی۔ آج آجر صرف تعلیمی اسناد کو نہیں دیکھتے، بلکہ وہ عملی مہارتیں، مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت، ابلاغ کی مہارت، ڈیجیٹل علم اور کاروباری ذہنیت کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ تبدیلی دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ دنیا اب ایک نئی معاشی سمت کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں صرف وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو ہنر مند ہوں گے اور نئے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔
ایسے ماحول میں مہارت کا حاصل کرنا کوئی آپشن نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کے لیے یہ مسئلہ صرف نوکری کا نہیں بلکہ خودمختاری، اعتماد اور قومی ترقی میں کردار ادا کرنے کا ہے۔ ایک ہنر مند نوجوان اپنی محنت سے خود کما سکتا ہے، چھوٹا کاروبار شروع کر سکتا ہے یا آن لائن بین الاقوامی سطح پر بھی کام کر سکتا ہے۔
ریپبلک پالیسی تھنک ٹینک نے اس پیغام کو بہت درست انداز میں پیش کیا ہے کہ “ہر پاکستانی نوجوان کو خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ کیا میرے پاس روزگار کے لیے ضروری مہارتیں موجود ہیں؟” یہ پیغام موجودہ دور کے نوجوانوں کو حقیقت کا آئینہ دکھاتا ہے۔
پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں نوجوان آبادی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے۔ یہ آبادی ملکی ترقی کا انجن بن سکتی ہے یا بے روزگاری اور بدامنی کا سبب بھی بن سکتی ہے—یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو کیسے تیار کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارا تعلیمی نظام ابھی تک رٹہ سسٹم اور نظریاتی علم پر انحصار کرتا ہے۔ جب تک عملی مہارتوں کو تعلیم کے ساتھ نہیں جوڑا جائے گا، تب تک صرف ڈگریاں کافی نہیں ہوں گی۔ حکومت، نجی شعبہ، اور تعلیمی اداروں کو مشترکہ طور پر مہارت پر مبنی تعلیم کو فروغ دینا ہوگا۔
تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت، نرم مہارتوں ، ڈیجیٹل کورسز، اور کاروباری تربیت کو عام کیا جانا چاہیے۔ نوجوانوں کو انٹرن شپ، پراجیکٹ بیسڈ لرننگ اور رہنمائی کے ذریعے اصل دنیا کے مسائل سے متعارف کروایا جانا چاہیے۔
آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز نے تعلیم اور مہارت کو پہلے سے زیادہ قابلِ رسائی بنا دیا ہے۔ کوڈنگ، گرافک ڈیزائن، مواد نویسی، اور ای-کامرس جیسے شعبے اب ہر کسی کی پہنچ میں ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ڈیجیٹل خواندگی کے فروغ اور آن لائن تعلیم کی سہولتوں کو پورے ملک میں عام کرے، خاص طور پر دیہی اور پسماندہ علاقوں میں۔
لیکن مہارت صرف ملازمت کے لیے نہیں، بلکہ عزتِ نفس، خود داری اور قومی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔ ایک ہنر مند قوم مشکلات کا مقابلہ کر سکتی ہے، تبدیلی کو اپنا سکتی ہے، اور ترقی کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
اس کے لیے ہمیں سوچ کا زاویہ بدلنا ہوگا۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں پر صرف ڈگری حاصل کرنے کا دباؤ نہ ڈالیں، نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری خود اٹھائیں اور صرف سرکاری نوکری یا خاندان پر انحصار نہ کریں۔ آجرین کو چاہیے کہ وہ مہارت کو اہمیت دیں نہ کہ صرف سندوں کو۔ پالیسی سازوں کو چاہیے کہ قومی نصاب اور ملازمت کی پالیسیوں کو زمینی حقائق کے مطابق ڈھالیں۔
ریپبلک پالیسی کی جانب سے مہارتوں کے فروغ کی یہ مہم دراصل ایک وسیع تر وژن کا حصہ ہے، جس کا مقصد ایک ایسی معیشت کی بنیاد رکھنا ہے جو علم، مہارت اور جدت پر قائم ہو۔ اس مقصد کے لیے ہمیں تعلیمی اصلاحات، نجی و سرکاری اشتراک، اور معاشرتی سطح پر آگاہی مہمات کی ضرورت ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ خواتین، معذور افراد اور محروم طبقے کے نوجوانوں کو بھی برابری کی سطح پر تربیت کے مواقع دیے جائیں۔ حقیقی ترقی تبھی ممکن ہے جب ہر نوجوان کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے۔
آخر میں، ہر نوجوان کو سمجھنا ہوگا کہ اس کا مستقبل خود اس کے ہاتھ میں ہے۔ روزگار، ترقی، اور قومی خدمت کا آغاز صرف ایک قدم سے ہوتا ہے—اور وہ ہے مہارت حاصل کرنا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم سب انتظار کرنا چھوڑیں اور تیاری شروع کریں، کیونکہ اب سوال یہ نہیں کہ مہارت اہم ہے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم اسے کتنی جلدی حاصل کرتے ہیں۔ جتنا جلدی سیکھیں گے، اتنا ہی روشن ہوگا ہمارا مستقبل۔