Premium Content

Add

سوشل میڈیا ٹاسک فورس

Establishing social media task forces to quell the freedoms of speech and expression have never been successful.
Print Friendly, PDF & Email

سوشل میڈیا ٹاسک فورس کو ’فوج مخالف‘ مواد کے لیے قائم کرنا ایک برا خیال ہے، کیونکہ اس طرح کی مبہم اسکیموں کا غلط استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے، اس سے آزادی اظہار رائے مزید سبوتاژہوسکتی ہے۔ جیسا کہ جمعہ کو اطلاع دی گئی ہےکہ حکومت فوج کے اوپر تنقیدی آن لائن مواد کی جانچ کے لیے ٹاسک فورس کی تشکیل پر غور کر رہی ہے۔ ایف آئی اے، پی ٹی اے، نادرا اور ایل ای اے کے اہلکاروں کو اس فورس کا حصہ بنایا جائے گا۔ تاہم، ریاستی اداروں کو حقیقی طور پر دشمن عناصر کے حقیقی خطرے سے بچانے کی کوشش کرنے کے بجائے، یہ ایک سیاسی اقدام لگتا ہے، کیونکہ حکمران سیٹ اپ سے وابستہ افراد نے پی ٹی آئی پر فوج مخالف مہم چلانے کا الزام لگایا ہے۔ فوج اور دیگر ریاستی اداروں پر تنقید کے لیے سزا میں اضافہ کرنے کے من مانی اقدامات کے سلسلے میں یہ صرف تازہ ترین مثال ہے۔ مثال کے طور پر، گزشتہ ماہ کابینہ نے سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کو تیز کرنے کے لیے ایک بل پر غور کیا، جبکہ اپریل 2021 میں، پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں، ایک قانون تجویز کیا گیا تھا جس میں کہاگیا تھا کہ جو لوگ”جان بوجھ کر مسلح افواج  کا مذاق اڑاتے ہیں” اُن پر دو سال قید اور جرمانے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔

اس طرح کے مجوزہ قوانین اور ٹاسک فورسز جمہوری کلچر کے لیے ناسور ہیں۔ آزاد معاشرے میں تمام ریاستی اداروں کو عوام کی تنقید کو نہ صرف برادشت کرنا چاہیے بلکہ ادارے کو اپنی اصلاح بھی کرنی  چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ ہتک عزت کے واضح مقدمات یا تشدد کو فروغ دینے کے لیے کال کرنا ایک الگ معاملہ ہے، لیکن ان حالات سے نمٹنے کے لیے قانون کی کتابوں میں پہلے سے ہی قوانین موجود ہیں۔ اداروں پر تنقید کو روکنے کے لیے تازہ ترین اقدام  اور تمام سابقہ ​​اقدام  سیاست سے جڑے ہوئے ہیں، پاکستان میں طاقت کے حقیقی سرچشموں  کو خوش کرنے کے لیے اس وقت کی حکومت پیچھے کی طرف جھک رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج پر مسلسل تنقید کی جا رہی ہے کیونکہ وہ اب بھی سیاست میں بہت گہرائی سے سرایت کر رہی ہے، پچھلی فوجی قیادت کے سیاسی معاملات میں ملوث ہونے سے خود کو الگ کرنے کے دعووں کے باوجودیہ بھی ستم ظریفی ہے کہ اس وقت جن سوشل میڈیاپر جن  شخصیات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ شخصیات اپنےدور  میں دوسری سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانے کی ’حوصلہ افزائی‘ کرتی تھی ۔ اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ تمام ادارے آئینی حدود میں رہ کر اپنا کام کریں اور تنقید اور بحث کے ایک صحت مند کلچر کو تہذیب کے اصولوں کے اندر رہتے ہوئے اجازت دیں۔ سوشل میڈیا ٹاسک فورس جیسی تجاویز کو مستقل طور پر ختم کر دینا چاہیے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1