Premium Content

سدھیر فلمی تاریخ کا پہلا سپرسٹار

Print Friendly, PDF & Email

سدھیر ، پاکستان کی فلمی تاریخ کے پہلے سپر سٹار اور ابتدائی دور کے سب سے کامیاب اور مقبول ترین فلمی ہیرو تھے۔ وہ پچیس جنوری1921 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُن کا اصل نام شاہ زمان خان آفریدی تھا۔

پہلی فلم فرض تقسیم سے قبل لاہور میں بنی تھی۔ سدھیر قیام پاکستان کے بعد تیسری ریلیز شدہ فلم ہچکولے (1949) کے ہیرو بھی تھے۔ انھیں بریک تھرو ملکہ ترنم نور جہاں کی مشہور زمانہ نغماتی فلم دوپٹہ (1952) سے ملا تھا جس میں وہ  اجے کمارنامی ایک گمنام اداکار کے مقابل سیکنڈ ہیرو تھے لیکن پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے۔

سدھیرکو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ اپنے تقریباَ چالیس سالہ فلمی کیرئر میں ہمیشہ مرکزی کرداروں میں کاسٹ ہوتے تھے اوربڑے بڑے سپر سٹارز ، ان کے مقابل ثانوی کرداروں میں نظر آتے تھے۔

سدھیر ایک آل راؤنڈ اداکار تھے

سدھیر ، اپنے ابتدائی دور میں ایک آل راؤنڈ اداکار تھے جنھیں گمنام (1954) ،طوفان (1955) ، چھوٹی بیگم، ماہی منڈا (1956) ،داتا،آنکھ کا نشہ، یکے والی (1957) ، جان بہار ،جٹی (1958) اور جھومر (1959) جیسی سماجی اور نغماتی فلموں کے علاوہ سسی (1954)، سوہنی (1955)،دلا بھٹی ،مرزا صاحباں،گڈی گڈا (1956)،نوراں (1957)، انارکلی (1958) اورگل بکاؤلی (1961) جیسی رومانٹک اور لوک داستانوں پر مبنی فلموں میں بھی کاسٹ کیا گیا تھا۔

انھیں حاتم  (1957) ،کرتار سنگھ (1959) اور غالب (1961) جیسی تاریخی فلموں کے علاوہ باغی (1956) ،آخری نشان (1958)،عجب خان (1961) اورفرنگی (1964) جیسی بڑی بڑی ایکشن فلموں کا ہیرو ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

سدھیر ، ابتدائی دور کے کامیاب ترین فلمی ہیرو

پاکستان کی فلمی تاریخ میں پچاس کا پہلا عشرہ سدھیر کے نام تھا جس میں کل پانچ گولڈن جوبلی منانے والی اردو فلموں میں سے چار کے ہیرو تھے۔ سب سے زیادہ گیارہ سلورجوبلی فلمیں بھی انھی کے کریڈٹ پر تھیں۔ ایسی فلموں میں پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی اردو فلم سسی (1954) اور پہلی ایکشن فلم باغی (1956) جیسی یادگار فلمیں بھی تھیں۔

یہ ریکارڈز کراچی سرکٹ کے ہیں جبکہ لاہور سرکٹ اور پنجابی فلموں کا مکمل ریکارڈ دستیاب نہیں ہے جہاں بتایا جاتا ہے کہ دلابھٹی (1956) اوریکے والی (1957) جیسی بلاک باسٹر فلموں نے بزنس کے نئے ریکارڈز قائم کیے تھے اور ان فلموں کی کمائی سے دو بڑے نگار خانے ، ایورنیو اور باری سٹوڈیو وجود میں آئے تھے۔

ان کے علاوہ کرتار سنگھ (1959) جیسی تاریخی فلم بھی سدھیرکے کریڈٹ پر ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ فلم بھارتی صوبہ پنجاب میں بھی مسلسل تین سال تک زیر نمائش رہی تھی۔

جوبلی فلموں کی حقیقت

یاد رہے کہ پچاس کے عشرہ میں جوبلیاں کرنے والی فلمیں ستر اور اسی کے عشروں میں جوبلیاں منانے والی فلموں سے دگنی کامیاب ہوتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت نہ تو زیادہ سینما گھر ہوتے تھے ، نہ ہی فلم بینوں کی اتنی تعداد ہوتی تھی اور نہ ہی فلموں پر اتنی لاگت آتی تھی۔ ٹیلی ویژن بھی نہیں تھا اور اسی لیے فلم جو واحد نشہ ہوتا تھا وہ لوگوں کو بار بار سینما گھروں تک لے جاتا تھا اور ایسے میں جو فلمیں کامیاب ہوتی تھیں وہ اپنی لاگت سے کہیں زیادہ پیسہ کما لیتی تھیں۔ اس وقت مقابلہ بڑا سخت ہوتا تھا کیونکہ بھارتی فلمیں بھی ملک بھر میں ریلیز ہوتی تھیں اور ان کے مقابلے میں جب کوئی فلم کامیاب ہوتی تھی تو وہ واقعی کامیاب ہوتی تھی۔

سدھیر ، ایک بھاری بھر کم ہیرو

ساٹھ اور ستر کے عشروں کا دور انتہائی مقابلے کا دور تھا جس میں بہت بڑے بڑے فلمی ہیروز موجود تھے۔ اس دور میں سدھیرکی پہچان ایک بھاری بھر کم ایکشن فلمی ہیرو کی تھی جو ایک غیور ، بہادر اور جوانمردی کے پیکر کے طور پر فلموں میں نظر آتے تھے اور عوام الناس میں اسقدر مقبول تھے کہ ان کی مقبولیت کا ریکارڈ اگر کسی نے توڑا تھا تو وہ صرف سلطان راہی تھے۔

ساٹھ کی دھائی میں ان کی فلم فرنگی (1964) ایک معرکتہ الآرا فلم کے طور پر یاد رکھی جائے گی وہاں جی دار (1965) پاکستان کی پہلی فلم تھی جس نے ہفتوں کے لحاظ سے پلاٹینم جوبلی کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

دلچسپ بات ہے کہ ستر کے عشرہ میں بھی سدھیر کی ایک پنجابی فلم ماں پتر (1970) نے کراچی میں پلاٹینم جوبلی کی تھی جبکہ اس عشرہ کی ایک بڑی اردو فلم ان داتا (1976) تھی جس میں وہ سلطان راہی اورمحمد علی کے باپ بنے تھے اور پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے۔ اس فلم کے ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھی جائے گی کہ اس فلم کا جو اگلا ورژن فلم سن آف ان داتا (1987) کے طور پر بنایا گیا تھا ، اس میں بھی  سدھیر پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے اور یہ ان کی آخری فلم بھی تھی۔

سدھیر سبھی ہیروز پر بھاری تھے

یہاں یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ بڑے بڑے سپر سٹارز جن میں درپن ، اسلم  پرویز ، محمد علی، وحید مراد، اعجاز ، حبیب ، یوسف خان، اکمل، سلطان راہی، بدر منیر، شاہد  اور عنایت حسین بھٹی وغیرہ نے سدھیرکے مقابل ثانوی کردار ادا کیے تھے۔ جبکہ سنتوش، کمال اور ندیم کے ساتھ وہ کسی فلم میں نہیں دیکھے گئے تھے۔

!سدھیر ، وحیدمراد کی ضد تھے

سدھیرخود پر گیت فلمبند کروانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ ان کا ایکشن فلمی ہیرو کا وہ امیج تھا جو جنگ و جدل کے لیے تو ایک آئیڈیل ہیرو تھا لیکن رومانٹک کرداروں اور گانا گانے والے ہیرو کے لیے موزوں نہیں تھا۔

سدھیر ، وحید مراد کی ضد تھے اور یہی وجہ تھی جتنی تعداد میں انھوں نے فلموں میں کام کیا تھا ، اس تناسب سے ان پر فلمائے ہوئے گیتوں کی تعداد بہت کم ہے۔

سدھیر پر سب سے زیادہ سلیم رضاکے گائے ہوئے گیت فلمائے گئے تھے جبکہ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ اب تک کے اعددوشمار کے مطابق عنایت حسین بھٹی ،منیر حسین اورمسعود رانا کے یکساں تعداد میں گیت سدھیر پر فلمائے گئے تھے جن میں سب سے سپر ہٹ گیت تو فلم ڈاچی (1964) کا تھا ٹانگے ولا خیر منگ دا۔۔ جبکہ مسعود رانا اورمنیر حسین کا ایک اور شاہکار گیت اے ماں ، پیاری ماں۔۔ (فلم وریام، 1969) بھی سدھیر پر فلمایا گیاتھا۔

سدھیر ، صنف نازک کے ہیرو

سدھیر اپنی مردانہ وجاہت کی وجہ سے صنف نازک کے لیے ایک خاص کشش رکھتے تھے ، یہی وجہ تھی کہ گھریلو بیوی ہونے کے باوجود اداکارشمی اور زیبا سے بھی شادی کی تھی۔ سدھیر کو 1970، 1974، 1981 میں نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اُن کا انتقال 19 جنوری 1997 کو ہوا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos