سابق وزیر اعظم کو پنجاب رینجرز کی بھاری نفری کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ سے غیر رسمی طور پر باہر گرفتار کرنے کے تین دن کے اندر، گزشتہ روز چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں اپنی تحویل میں لے لیا۔
عمران خان کو اسلام آباد پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس میں رات بطور مہمان رکنے اور آج اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا گیا۔ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواست دائر کرنے کےلیے گئے تھے ، وہ اپنا بائیو میٹرک کا عمل مکمل کر رہے تھے جب اُنہوں گرفتار کیا گیا۔
حکومت اور اسلام آباد پولیس کو مزید حکم دیا گیا کہ وہ عمران خان کے گیسٹ ہاؤس میں ’قیام‘ کے دوران سکیورٹی کو یقینی بنائیں، اور عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ اس عرصے کے دوران انہیں ‘قیدی’ نہ سمجھا جائے۔
عمران خان کی گرفتاری کو سپریم کورٹ نے ’غیر قانونی‘ قرار دیا کیونکہ اُنہیں عدالتی احاطے میں گرفتار کیا گیا تھا، یہ ایک ایسا قاعدہ جسے پہلے دیگر ہائی پروفائل مقدمات میں برقرار رکھا گیا ہے۔
اس گرفتاری کو پہلے اسلام آباد کے چیف جسٹس نے قانونی قرار دیا تھا، لیکن قانونی برادری کے بہت سے لوگوں نے اس فیصلے کو ’غلط‘ قرار دیا تھا۔
حکومتی رہنما اس پیشرفت پر قابل فہم طور پر غصے میں تھے۔ پریس کانفرنس کے دوران وزیر اطلاعات نے سخت بیان دیا ، اُنہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ججز کے گھر بھی پھر محفوظ نہیں رہیں گے۔ اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں اس طرح کے بیان غیر مناسب ہیں۔ حکومتی وزراء کو اس طرح کی بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے۔
عمران خان کی قانونی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ان کی گرفتاری کا طریقہ گہرا مسئلہ تھا، اب اُنہیں بغیر کسی محاذ آرائی کے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا سامنا کرنا چاہیے۔
مقدمے اور گرفتاریاں پاکستانی سیاسی تجربے کا حصہ ہیں ۔ خان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کے حامی اور ہمدرد ریاست کے ساتھ مزید تصادم میں نہ پڑ جائیں۔اُنہیں اپنی گرفتاری کے بعد پھوٹنے والے تشدد کی واضح الفاظ میں مذمت کرنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اُن کے حامی تشدد کے واقعات سے دور رہیں۔
ان کی گرفتاری نے پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ ساتھ فوجی قیادت کے ساتھ ان کی پارٹی کے تنازعہ میں ایک بالکل نیا محاذ کھول دیا۔ اُنہیں اپنے فیصلوں کے نتیجے میں ہونے والے نتائج کے لیے احتیاط سے اور ذمہ دارانہ غور و فکر کے ساتھ اپنا راستہ آگے بڑھانا چاہیے۔