پروین شاکر نئے لب و لہجہ کی تازہ بیان شاعرہ تھیں، جنھوں نے مرد کے حوالے سے عورت کے احساسات اور جذباتی مطالبات کی لطیف ترجمانی کی۔ ان کی شاعری نہ تو آہ و زاری والی روایتی عشقیہ شاعری ہے اور نہ کُھل کھیلنے والی رومانی شاعری۔ جذبہ و احساس کی شدّت اور اس کا سادہ لیکن فنکارانہ بیان پروین شاکر کی شاعری کا خاصہ ہے۔ ان کی شاعری ہجر و وصال کی کشاکش کی شاعری ہے جس میں نہ ہجر مکمل ہے اور نہ وصل۔ جذبہ کی صداقت،رکھ رکھاؤ کی نفاست اور لفظیات کی لطافت کے ساتھ پروین شاکر نے اردو کی نسائی شاعری میں اک ممتاز مقام حاصل کیا۔
تیری خوشبو کا پتا کرتی ہے
مجھ پہ احسان ہوا کرتی ہے
چوم کر پھول کو آہستہ سے
معجزہ باد صبا کرتی ہے
کھول کر بند قبا گل کے ہوا
آج خوشبو کو رہا کرتی ہے
ابر برسے تو عنایت اس کی
شاخ تو صرف دعا کرتی ہے
زندگی پھر سے فضا میں روشن
مشعل برگ حنا کرتی ہے
ہم نے دیکھی ہے وہ اجلی ساعت
رات جب شعر کہا کرتی ہے
شب کی تنہائی میں اب تو اکثر
گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے
دل کو اس راہ پہ چلنا ہی نہیں
جو مجھے تجھ سے جدا کرتی ہے
زندگی میری تھی لیکن اب تو
تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے
اس نے دیکھا ہی نہیں ورنہ یہ آنکھ
دل کا احوال کہا کرتی ہے
مصحف دل پہ عجب رنگوں میں
ایک تصویر بنا کرتی ہے
بے نیاز کف دریا انگشت
ریت پر نام لکھا کرتی ہے
دیکھ تو آن کے چہرہ میرا
اک نظر بھی تری کیا کرتی ہے
زندگی بھر کی یہ تاخیر اپنی
رنج ملنے کا سوا کرتی ہے
شام پڑتے ہی کسی شخص کی یاد
کوچۂ جاں میں صدا کرتی ہے
مسئلہ جب بھی چراغوں کا اٹھا
فیصلہ صرف ہوا کرتی ہے
مجھ سے بھی اس کا ہے ویسا ہی سلوک
حال جو تیرا انا کرتی ہے
دکھ ہوا کرتا ہے کچھ اور بیاں
بات کچھ اور ہوا کرتی ہے