طاہر مقصود
آج پاکستانی عدلیہ ایسے نازک موڑ پر کھڑی ہے جہاں اس کی آزادی اور وقار کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ عدلیہ کی زبوں حالی دراصل اُنہی حلقوں کی بے حسی سے جڑی ہے جن پر اس کے دفاع کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر وکلا، عوام اور خود ریاستی ادارے اس کی آزادی کے لئے جدوجہد نہ کریں تو یہ ادارہ اپنی بقا کھو بیٹھے گا۔
یہی احساس شاید اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ جج صاحبان کو اس حد تک لے آیا کہ انہوں نے براہ راست سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ انہوں نے علیحدہ علیحدہ مگر ایک جیسے نکات پر مشتمل درخواستیں جمع کرائیں جن میں عدلیہ کی آزادی اور ادارے کی ساکھ کو لاحق خطرات کو اجاگر کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ معزز جج صاحبان عام درخواست گزاروں کی طرح کمرہ عدالت میں بیٹھے اپنی درخواستوں کے اندراج کے منتظر ہیں۔ یہ منظر پوری قوم کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اگر جج صاحبان خود انصاف کے لئے دہائی دے رہے ہیں تو عام شہری کس حال میں ہوں گے۔
درخواست گزار ججوں نے اپنے موقف میں کہا کہ “آج اسلام آباد ہائی کورٹ اور اس کی آزادی کو تباہ کیا جا رہا ہے، صرف اس لئے کہ چند ججوں نے انتظامیہ کی مداخلت پر اعتراض کیا اور اپنے حلف کی پاسداری کی۔” یہ بیان صورتحال کی سنگینی کو عیاں کرتا ہے۔ عدلیہ ریاست کے تین بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے اور اگر یہ ستون کمزور ہو جائے تو آئینی ڈھانچہ لرز جاتا ہے۔ عوام اس صورتحال کے مضمرات کو بخوبی سمجھتے ہیں اور طاقتوروں کو بھی اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
آئین میں اختیارات کی علیحدگی کا اصول واضح ہے: مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ہر ایک کو آزاد ہونا چاہیے تاکہ طاقت کا توازن برقرار رہے اور آمریت کے امکانات کو ختم کیا جا سکے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں آمرانہ رویے کو قبولیت مل رہی ہے۔ جہاں کبھی شہری آزادیوں اور اداروں کی خودمختاری کے لئے آواز بلند ہوتی تھی، وہاں آج خاموشی اور بے عملی غالب ہے جو درحقیقت مکمل ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔
ممکن ہے کہ یہی مایوسی ان پانچ جج صاحبان کو اس انتہائی اقدام پر لے آئی۔ جب انصاف ملنا مشکل ہو جائے تو اس کے لئے لڑنا پڑتا ہے۔ یہ کہ یہ لڑائی عدالت کے اندر ہی لڑی جا رہی ہے، اس بات کی علامت ہے کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ جب تک عدالتوں سے انصاف کی امید باقی ہے، تب تک اصلاحِ احوال کا امکان موجود ہے۔ اصل خطرہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انصاف کی امید ہی ختم ہو جائے اور معاشرہ انارکی کی لپیٹ میں آ جائے۔
ہمارے خطے کے دیگر ممالک میں حالیہ برسوں میں ریاستی ناکامی اور بدانتظامی کے باعث شدید بحران دیکھنے کو ملے ہیں۔ پاکستان کو اس راستے سے بچانے کے لئے سیاسی اور طاقتور طبقات کو فوری اقدام کرنا ہوگا۔ آئینی ڈھانچے کی حرمت کو تسلیم کیا جائے، اداروں کی حدود کا احترام کیا جائے اور قانون کو ہر دوسری مصلحت پر مقدم رکھا جائے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے ملک کو بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔
اب وقت ہے کہ عدلیہ کو نہ صرف انصاف فراہم کیا جائے بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ یہ ذمہ داری صرف ججوں کی نہیں بلکہ معاشرے کے ہر طبقے کی ہے۔ اگر عدلیہ کی آزادی کو تحفظ نہ دیا گیا تو پاکستان کو آئینی انحطاط اور ادارہ جاتی زوال سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ عوام اور ریاست کو مل کر عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ ملک کا مستقبل محفوظ ہو اور قانون کی بالادستی قائم رہ سکے۔