غصے کے اثرات: ایک نفسیاتی، جسمانی اور روحانی جائزہ

[post-views]
[post-views]

غصہ انسان کی فطرت کا ایک فطری جز ہے، جو عام طور پر ناانصافی، بے اختیاری یا ذہنی دباؤ جیسے حالات میں سامنے آتا ہے۔ اگرچہ بعض اوقات یہ جذبہ کسی اصلاح یا مثبت اقدام کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے، مگر جب یہ حد سے تجاوز کر جائے یا زندگی کا مستقل رویہ بن جائے تو یہ انسان کی ذہنی، جسمانی اور معاشرتی زندگی کو گہری ضرب پہنچاتا ہے۔

سب سے پہلے غصہ انسان کی ذہنی کیفیت کو متاثر کرتا ہے۔ اس کی موجودگی میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت دھندلا جاتی ہے، برداشت کی ہمت گھٹنے لگتی ہے، اور جذباتی توازن بکھر جاتا ہے۔ غصے کی حالت میں کیے گئے فیصلے اکثر ناپختہ اور عجلت پسندانہ ہوتے ہیں، جن کے نتائج پچھتاوے، ندامت اور تعلقات میں دراڑ کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ یہ کیفیت ذہنی دباؤ، بے سکونی اور مایوسی جیسے مسائل کو جنم دیتی ہے۔

جسم پر بھی غصے کے اثرات فوری اور نمایاں ہوتے ہیں۔ دل کی رفتار تیز ہو جاتی ہے، سانس بے ترتیب ہونے لگتا ہے، عضلات کھچاؤ میں آ جاتے ہیں اور خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اگر غصہ مسلسل رہے تو یہ دل کے امراض، بلند فشارِ خون، ذیابیطس، معدے کی خرابیوں اور قوتِ مدافعت میں کمی جیسے کئی جسمانی امراض کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ حتیٰ کہ جلد کی حساسیت، خارش اور مہاسے جیسے مسائل بھی نمودار ہو سکتے ہیں۔

روحانی پہلو سے دیکھا جائے تو غصہ انسان کو حکمت، حلم اور بردباری سے محروم کر دیتا ہے۔ دینِ اسلام نے اس جذبے کو قابو میں رکھنے کی نہایت تاکید کی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: “طاقتور وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے، بلکہ اصل طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو رکھے۔” اس قول میں انسان کی اصل عظمت اور اخلاقی بلندی کا راز پوشیدہ ہے۔

غصے کو قابو میں رکھنا ممکن ہے، اگر انسان اس کے خلاف سنجیدگی اور شعور کے ساتھ قدم اٹھائے۔ خاموش رہنا، وضو کر لینا، فضا سے الگ ہو جانا، گہرے سانس لینا اور معاف کرنے کا جذبہ اپنانا ایسے موثر طریقے ہیں جو غصے کی شدت کو کم کر سکتے ہیں۔ ان اعمال سے نہ صرف دل و دماغ کو سکون ملتا ہے بلکہ رشتوں میں نرمی، استحکام اور محبت بھی پیدا ہوتی ہے۔

آخرکار یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ غصہ ایک آزمائش بھی ہے اور ایک موقع بھی۔ جو شخص اس پر قابو پانے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے، وہ نہ صرف اپنی ذات میں توازن پیدا کرتا ہے بلکہ معاشرے میں بھی اعتدال، محبت اور ہم آہنگی کا پیامبر بن جاتا ہے۔ باشعور اور بالغ نظر انسان وہی ہے جو غصے کی آگ کو ضبط کے پانی سے بجھا دے اور اپنی شخصیت کو سکون، حکمت اور وقار کی روشنی سے مزین کرے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos