نوید اظہر
پاکستان میں سیاست ہمیشہ سے ایک پیچیدہ عمل رہی ہے جس میں عوامی رائے سے زیادہ ادارہ جاتی طاقتوں، خاص طور پر عسکری اسٹیب کا کردار فیصلہ کن رہا ہے۔ جمہوری اصولوں کے مطابق حکومت کا قیام عوام کے ووٹ سے ہونا چاہیے، مگر پاکستان کی عملی سیاست میں اکثر ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں سیاسی جماعتوں کی کامیابی اور ناکامی کا دار و مدار محض عوامی حمایت پر نہیں بلکہ ادارہ جاتی تعلقات پر بھی ہوتا ہے۔
سیاسی جماعتیں وقت کے ساتھ مقبول یا غیر مقبول ہوتی رہتی ہیں، لیکن پاکستان کی ایک مستقل اسٹیب قوت کے طور پر موجود رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) — ہر بڑی جماعت نے کسی نہ کسی وقت اسٹیب کے ساتھ اشتراک یا تصادم کا تجربہ کیا ہے۔
سنہ 2018 کے انتخابات کو ناقدین اسٹیب اور پی ٹی آئی کے درمیان غیر علانیہ اتحاد کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں یہی حمایت مسلم لیگ (ن) کو حاصل نظر آتی ہے۔ اس حمایت کی منتقلی سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آیا پاکستان میں حقیقی جمہوریت موجود ہے یا محض ایک انتخابی ڈھانچہ جسے پسِ پردہ ادارے کنٹرول کرتے ہیں۔
حال ہی میں بھارت کے ساتھ محدود جنگی کشیدگی کے بعد پاکستان میں ایک نئی قومی خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے۔ اسی ماحول میں یہ مطالبات سامنے آ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کو دوبارہ سیاسی میدان میں اپنی مکمل شرکت کی اجازت دی جائے۔ باوجود قانونی اور ادارہ جاتی رکاوٹوں کے، پی ٹی آئی اب بھی ملک کی سب سے مقبول جماعت سمجھی جاتی ہے، خصوصاً نوجوانوں اور شہری علاقوں میں۔
لیکن اگر پی ٹی آئی اور اسٹیب کے درمیان مفاہمت ہو جاتی ہے تو اس سے مسلم لیگ (ن) کو سخت سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے، کیونکہ موجودہ حالات میں اس کی مقبولیت نہایت کمزور ہے اور حکومت میں اس کی موجودگی ادارہ جاتی حمایت پر منحصر ہے۔
اس وقت پاکستان کی سیاست ایک ایسی شطرنج کی مانند ہے جس میں اصل مہرے پی ٹی آئی اور اسٹیب ہیں۔ اگر ان کے درمیان مفاہمت ہو جاتی ہے، تو پورا سیاسی توازن بدل سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے یہ ایک بڑا سیاسی دھچکا ہوگا، اسی لیے وہ ہر ممکن کوشش کرے گی کہ پی ٹی آئی کو دوبارہ اداروں سے قریب نہ ہونے دیا جائے۔
پیپلز پارٹی کو وقتی طور پر اتنا خطرہ محسوس نہیں ہوتا، کیونکہ اس کا سیاسی مرکز اندرونِ سندھ ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے بھی ایک چیلنج بن سکتی ہے۔ دیگر جماعتیں — جیسے جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی، تحریک لبیک، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ — اس وقت کوئی بڑا سیاسی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality podcasts:
پی ٹی آئی کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اداروں سے تصادم کی راہ پر چلتی رہے گی یا سیاسی حقیقتوں کو تسلیم کرتے ہوئے مفاہمت کا راستہ اختیار کرے گی۔ اگر وہ اسٹیب کے ساتھ معاملات طے کر لیتی ہے تو انتخابات میں حصہ لے کر حکومت بنانے کا موقع پا سکتی ہے۔ اسٹیب کے لیے بھی یہ مفاہمت فائدہ مند ہو سکتی ہے کیونکہ پی ٹی آئی عوامی سطح پر سب سے زیادہ مقبول جماعت ہے۔
تاہم، اس کے لیے پی ٹی آئی کو اپنی سیاسی زبان اور پالیسی میں لچک دکھانی ہوگی۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ ہوگا، خاص طور پر جب انہوں نے خود کو اسٹیب مخالف بیانیے پر تعمیر کیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اس وقت اقتدار میں ہے، لیکن اس کی مقبولیت کم ترین سطح پر ہے۔ معاشی مشکلات، انتظامی ناکامیوں، اور عوامی ناراضی نے اس کی سیاسی حیثیت کو کمزور کر دیا ہے۔ عوامی حمایت کے بغیر، اس کی سیاسی بقاء ادارہ جاتی پشت پناہی سے جڑی ہوئی ہے۔ اسی لیے مسلم لیگ (ن) کسی بھی ایسی مفاہمت کو روکنے کی کوشش کرے گی جو پی ٹی آئی اور اسٹیب کے درمیان ہو۔
پاکستان کی سیاست کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں عوامی بالادستی ابھی تک مکمل طور پر قائم نہیں ہو سکی۔ جب تک حکومتی فیصلے عوام کے ووٹ کی بنیاد پر نہیں ہوں گے، سیاسی غیر یقینی اور عدم استحکام جاری رہے گا۔ ادارہ جاتی مداخلت کے بغیر ایک آزاد سیاسی نظام ہی پاکستان کے لیے پائیدار ترقی اور استحکام کی ضمانت بن سکتا ہے۔
پاکستان ایک نازک مگر فیصلہ کن مرحلے پر کھڑا ہے۔ اگر پی ٹی آئی اور اسٹیب کے درمیان دوبارہ تعلقات قائم ہو جاتے ہیں، تو سیاست کا منظر نامہ بدل جائے گا۔ تاہم یہ تبدیلی مسلم لیگ (ن) کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی، اور وہ ہر ممکن کوشش کرے گی کہ ایسا نہ ہو۔
آخرکار، پاکستان میں جمہوری ترقی کا انحصار اس بنیادی اصول پر ہے کہ حکمرانی کا حق صرف عوام کو حاصل ہو۔ جب تک یہ اصول رائج نہیں ہوتا، سیاست میں وقتی جوڑ توڑ تو جاری رہے گا، لیکن حقیقی جمہوریت محض ایک خواب ہی رہے گی۔