پتی پینے والی کو پتی پی گیا

[post-views]
[post-views]

تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

جواں سالہ دوشیزہ نے بزرگ خاتون سے انتہائی ادب واحترام سے پوچھا:” آج کل آپ کون سی پتی پی رہی ہیں”؟ جواب ترنت ملا مگر خاتون کی طرف سے نہیں ،خاتون کے ساتھ بیٹھے ہوئے جوان آدمی کی جانب سے۔ “ان کو کیا پتہ یہ کون سی پتی پی رہی ہیں۔ ان کو تو ان کا پتی پی گیا”۔ سوال کرنے والی حیرت زدہ ہوئی مگر بزرگ خاتون مسکرانے لگیں۔ بزرگ عورت اور جوان مرد کا رشتہ عجیب تھا۔مرد خاتون کا سب سے عزیز بیٹا تھا مگر نہ ہونے والے شوہر سے تھا۔ خاتون کی منگنی ہوئی تھی لیکن پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔ خاتون نے اپنے ایک ہم جماعت سے شادی کر لی۔ پہلا منگیتر بھی زیادہ دیر کنوارا نہ رہا۔ اس نے بھی اپنی ایک عزیزہ سے شادی کر لی۔ دونوں کو اللہ تعالی نے اولاد دی۔ تمام عمر اپنے اپنے گھر میں خوش و خرم رہے یا کم از کم دنیا کو یہی تاثر دیتے رہے۔ پہلے منگیتر کا حیاتیاتی بیٹا اب خاتون کو اپنی سگی اولاد سے عزیز تر تھا۔بیٹا بھی تمام عمر اس خاتون کیلیے دعا گو رہا تھا جو ماں نہ ہوتے ہوئے بھی اس کی ماں تھی۔تمام عمر وہ الگ الگ رہے مگر جڑے رہے، دعا کے رشتے میں، احساس کے رشتے میں۔ تقدیر کے فیصلے بھی عجب ہوتے ہیں۔جواں سالہ مرد کی محبوبہ جو اس کی بیوی بھی تھی ، حال ہی میں کینسر سے وفات پا گئیں تھی۔خاتون کے شوہر بھی ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد دل کے دورے کو باعث دنیا سے جا چکے تھے۔ بیٹے کا ٹرانسفر نا چاہتے ہوئے بھی اس شہر ہو گیا جہاں ماں نے عمر گزار دی تھی اور اب بھی گزار رہی تھی۔شوہر محبوب تھا اپنی تمام تر بشری کمزوریوں کے باوجود محبوب تھا۔ خاتون آج بھی رات بھر شوہر کے ایصال ثواب کیلیے نوافل پڑھتی تھیں، تسبیحات کرتی تھیں۔کوئی دن ایسا نہ تھا جب شوہر کے لیے آنسو نہ بہائے ہوں۔بھلے وقتوں میں خاتون نے اردو ادب اور انگریزی ادب کی اعلی تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔عمر بھر ادب پڑھایا تھا ، سمجھایا تھا ۔ اپنے شوہر کا ادب خود بھی کیا تھا ،اپنی اولاد اور اپنے ہر رشتے سے بھی کروایا بھی تھا۔ خاتون کو اپنے شوہر سے عشق تھا اور یہ عشق ان تمام تر مسائل کے باوجود تھا جو ان کو ساری زندگی نہ صرف سسرال بلکہ عزیز از جاں شوہر کی طرف سے لاحق رہے۔ بیٹا میڈیکل ڈاکٹر تھا لیکن خود کو سماجی سائنس دان سمجھتا تھا۔ قسمت سے وہ اس وقت اکٹھے ہوئے جب خاتون کے محبوب شوہر دنیا سے جا چکے تھے مگر وہ دنیا کے جانے کے بعد بھی ان کے محبوب تھے۔ انہوں نے اپنی اکلوتی کتاب کو منسوب بھی انہیں کے نام کیا تھا۔بیٹا بھی اکیلا تھا اور خاتون کی اپنی اولاد بھی اپنے گھروں کی ہو چکی تھی۔ لڑکیاں بھی بیاہی جا چکی تھیں اور اکلوتا حیاتیاتی بیٹا بھی۔ اللہ تعالی نے انہیں وقت کے اس موڑ پر ملوایا تھا جب دونوں کو ایک دوجے کی ضرورت تھی اور وہ دونوں ہی ایک دوسرے کا دکھ سمجھ سکتے تھے۔ ماں بیٹا روز ملتے تھے۔ ماں پورے فخر سے دنیا کو بتاتی تھی کہ یہ میرا سب سے بڑا بیٹا ہے۔ بیٹا بھی ماں سے پیار کرتا تھا،احترام بھی اور فخر بھی۔ بیٹے کو ایک بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ کوئی شخص اپنی بیوی کے راستے میں کیسے رکاوٹیں ڈال سکتا ہے؟ خاتون نے قرآن شریف کا ترجمہ کیا تھا۔ نعت کی ایک کتاب کی مصنفہ تھیں جس کا ہر شعر لاجواب تھا، عشق رسول میں ڈوبا ہوا تھا۔زیدی قبیلے کی خاتون نے ساری زندگی ایک ایسے شخص کے ساتھ بتا دی تھی جو زیدی نہیں تھا ۔شوہر نامدار نے بیوی کی شاعرانہ اور ادیبانہ صلاحیتوں کی نہ کبھی پذیرائی کی ، نہ کبھی حوصلہ افزائی۔ سسرال والے بھی خاتون کو صرف کام کرنے والی مشین سمجھتے تھے۔ کام کرنے والی مشین تنخواہ بھی لاتی تھی۔ یہ ایک اضافی فائدہ تھا۔ انہیں کبھی خیال نہیں آیا کہ محترمہ اگر ادب کی دنیا میں نام پیدا کریں گی تو وہ انہی کی عزت کا باعث بنے گا۔ ایک شعر شاید خاتون کی شادی شدہ زندگی کی عکاسی کر سکے :-
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
آج جب دوشیزہ نے بزرگ خاتون سے پتی کا پوچھا تو ہمارے سماجی سائنسدان کو نجانے کہاں سے یہ خیال آیا کہ ہمارے ہاں اکثر پتی اپنی پتنی کی تمام صلاحیتوں کو ایک ہی گھونٹ میں پی جاتے ہیں اور عمر بھر ڈکار بھی نہیں مارتے۔اسلام دنیا کا خوبصورت ترین مذہب ہے۔ اسلامی معاشرتی رویے انسانی عظمت کی معراج ہیں۔اسلامی تہذیب و تمدن کا اپنا ایک مزاج ہے۔اسلامی سکالرز کا خیال ہے کہ اسلام جنس سے قطع نظر ہر انسان کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے بہترین مواقع فراہم کرتا ہے۔دور جاہلیت کے عرب ایک دوسرے کو بطور گالی کہتے تھے “تمہاری ماں تمہارے باپ سے زیادہ مشہور تھی”۔اسلام نے عہد جاھلیت کے تمام فرسودہ رسوم و رواج پر سیاہی پھیر دی۔اسلام نور کا مذہب ہے۔اللہ تعالی خواتین کو بہترین صلاحیتیں عطا فرماتے ہیں اور اپنی رحمت کی مثال دینے کیلیے ماں کی ہستی کو چنتے ہیں۔حضرت محمد ﷺ حضرت خدیجہ سے محبت بھی بے پناہ کرتے تھے اور اسلام کے عروج پانے کے بعد بھی تمام خلقت کو بتاتے تھے کہ اسلام کے استحکام میں حضرت خدیجہ کی دولت نے کلیدی کردار ادا کیا۔تمام اسلامی دنیا میں حضرت فاطمہ کی نسل سے تعلق رکھنے والا ہر شخص کو سردار کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اسلام شادی کے بعد خواتین کا نام تبدیل کرنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ یہ بدعت جدید تہذیب کی مہربانی ہے کہ عورت اپنے شریک حیات کے نام سے جانی جائے۔ اسلامی تہذیب و تمدن کے تناظر میں ہمیں اپنے رویوں کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پروفیشنل کالجز میں ڈگری کیلیے زیر تعلیم طلبہ کی تعداد میں صنف نازک کا حصہ صنف غیر نازک سےزیادہ ہے لیکن ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد ملازمت پیشہ مرد حضرات سے کم ہوتی ہے ۔ میاں بیوی کا رشتہ دنیا کا خوبصورت ترین رشتہ ہے۔ فرقان میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔ لباس ہی انسان کی زینت ہوتا ہے۔ انسان اپنے لباس کی بدولت عزت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ با صلاحیت بیوی انتہائی شاندار پو شاک کی مانند ہے۔خوبصورت اور خوب سیرت بیوی اللہ تعالی کے بہترین انعامات میں سے ایک ہے۔اللہ تعالی اگر کسی مرد کو باصلاحیت زوجہ عطا فرمائیں تو اپنی زوجہ کے صلاحیتوں کے نکھار کیلیے زوجہ کا ساتھ دینا چاہیے۔اگر کسی کی بیوی ادبی صلاحیتوں سے مالا مال ہے تو مرد کا فرض بنتا ہے کہ اپنی بیوی کی خدادا دصلاحیتوں کی قدر کرے ۔اللہ تعالی جب کسی کو نوازنے کا اراداہ کرتے ہیں تو اسے لکھنے کی صلاحیت سے نوازتے ہیں۔ اللہ تعالی نے قلم کی قسم کھائی ہے ۔حقیقی مصنف اور حقیقی شاعر ذات باری تعالی خود ہیں۔ قلم بھی اسی کا ہے، الفاظ بھی اسی کے ہیں اور سوچنے کی صلاحیت بھی وہی عطا کرتا ہے۔مرد حضرات کی بے جا انا کی وجہ سے ادب کا دامن شہہ پاروں سے خالی رہ جاتا ہے ۔ مرد حضرات خواتین کی نہ صرف حوصلہ شکنی کرتے ہیں بلکہ ان کو طعن و تشیع کا نشانہ بھی بناتے ہیں ۔اللہ تعالی کے نبی اس دنیا سے پردہ فرماتے وقت بھی امت کو خواتین اور ملازمین کا خیال رکھنے کی شدید تلقین فرما گئے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ خواتین اور ملازمین کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔روز جزا خواتین کے حقوق کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں روز جزا ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ آئیے! پہلا قدم اٹھائیں ۔اپنی خواتین کی صلاحیتوں کو سراہنا شروع کریں۔یہی اسلامی رویہ ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos