دوہزاردو سے دوہزار بائیس تک کے محکموں کے ریکارڈ کے اجراء کے بعد توشہ خانہ کی کہانی نے ایک اور بھیانک موڑ لیا ہے۔ اگرچہ اب تک عوام کی زیادہ تر توجہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سےمنسوب اور فروخت کی گئی مہنگی گھڑیوں پر مرکوز تھی، لیکن اب جاری کردہ ریکارڈز نے دیگر ممتاز رہنماؤں کے طرز عمل پر بھی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔
فراہم کردہ دستاویز پر سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس 20 سالہ دور میں سرکاری عہدے پر خدمات انجام دینے والے تقریباً کسی بھی رہنما نے اپنے دفتر کی مراعات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ذاتی استعمال کے لیے مختلف قیمتی اشیا کی خریدوفروخت کو غیر منصفانہ نہیں سمجھا۔ یہاں تک کہ سیاست دان بھی جو دوسری صورت میں اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ان کی وسیع دولت خالصتاً خاندانی ہے ، اور جو ان چیزوں کی قیمت ادا کرنے کےقابل بھی تھے اُنہوں نے بھی خوب فائدہ اُٹھا یا ہے۔
صورت حال اور بھی زیادہ خراب ہے اگر کوئی اس حقیقت پر غور کرے کہ سرکاری سطح پر تحفہ دینے کے عمل میں تقریباً ہمیشہ ہی قیاس آرائی ہوتی ہے۔ اگر ہمارے عہدیداروں کو تحائف موصول ہوتے ہیں تو انہوں نے قابل قدر یا اس سے بھی زیادہ قیمت کی چیزیں دی بھی ہیں۔ تاہم، ہمارے عہدیداروں کی طرف سے پیش کیے گئے تحائف کی ادائیگی ان کی ذاتی دولت سے نہیں بلکہ عوامی فنڈز سے کی گئی۔ لہٰذا، کیا تحائف کو ان کی قیمت کے تھوڑے سے حصے کے لیے رکھنا جائز ہوگا؟
گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے بھی سوال کیا کہ 2002 سے پہلے کا ریکارڈ کہاں ہے؟ اور کیوں کچھ اسٹیک ہولڈرز معلومات خفیہ رکھنے پر اصرار کرتے رہتے ہیں ؟
یہ شفافیت اور احتساب کے مفاد میں ہو گا کہ عوام کو معلوم ہو کہ رہنما اپنے دفاتر سے کیسے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ریاست کی قیمت پر مزید ذاتی افزودگی کو روکنے کے لیے توشہ خانہ کے قوانین کو سخت کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔
جاری کردہ ریکارڈ نے ایک اہم سوال اٹھایا ہے: ہر تحفہ کی قیمت کا اندازہ کیسے لگایا جاتا ہے، اور کس کے ذریعے؟ زیادہ چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت ہے تاکہ ہر شے کی مناسب قیمت لگ سکے ۔ اشیاء کی مناسب قیمت لگا کر صرف مکمل ادائیگی کے بدلے میں ہی رکھی جانی چاہیے۔