@tariqdiru1 ڈاکٹر طارق اللہ
مصنف پی ایچ ڈی ہولڈر ہیں اورخیبرپختونخواہ میں سول سرونٹ ہیں
کسی بھی ملک، علاقے کیلیے جغرافیہ کا ایک جبر بھی ہوتا ہے، کچھ فوائد، نقصانات اور قیود بھی ہوتے ہیں۔ جنوبی اضلاع کے لیئے کوہاٹ ٹنل کی اہمیت جغرافیائی بھی، علامتی بھی اور ایک لحاظ سے اختتام اور شروعات بھی۔ خیبرپختونخوا ہ کے جنوبی اضلاع کی طرف سفر، وہاں پر رہائش یا روزگار کرنے کیلیے کوہاٹ ٹنل پاس کرنا سب سے پہلی نفسیاتی حد عبور کرنے کے مترادف ہے اگر چہ درہ آدم خیل سے آگے پہاڑ آپ کو زبان حال اور زبان قال سے آنے والے علاقوں کے بار ے میں کہہ رہے ہوتے ہیں لیکن ٹنل کے اس پار آب وہوا، موسم اور درجہ حرارت یک دم تبدیل ہونے لگتا ہے ، کرک بنوں، لکی مروت شمالی و جنوبی وزیرستان اور پھر ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان تک تقریباً ایک جیسا خطہ ہے۔
کوہاٹ ٹنل کی تعمیرسے پہلے جنوبی اضلاع کی جانب آمدورفت بہت مشکل امر تھا ، اپر کوتل سر سے گزرنا پڑتاتھا جوکہ تقریباً ایک گھنٹے کی مشکل ترین اور خطروں سے بھرپو رمسافت تھی اور ان مشکلات کی وجہ سے اکثروبیشتر لوگ آمدورفت سے گریز کیا کرتےتھے۔ ادھر کوہاٹ کے پہاڑ اور دوسرے طرف سے دریائے سندھ کی قیود نے جنوبی اضلاع کے کلچر, لہجہ، پکوان اور راویات کو بہت حد تک متاثر کیا جو کہ باقی خیبرپختونخوا سے الگ اور کافی مختلف ہے۔
لگتا ہے کہ جس طرح کوتل کے پہاڑ پر آمدورفت مشکل اور صبر آزما کام تھا بلکل اسی طرح ترقی کے عمل کو بھی یہاں پذیرائی میں بہت وقت لگا ، بظاہر پشاور سے اس طرف وسائل کی منتقلی، انفراسٹرکچر کی بہتری ، صحت اور تعلیمی اداروں کے قیام میں “کوتل سر پاس” جیسی دشواری کا سامنا رہا۔ بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام آباد اور باقی دُنیا سے ترقی کےعمل، خیالات اور وسائل کو پہلے پشاور اور پھر کوتل سرپاس سے گزرنا پڑتا تھا۔
تاہم اب ٹنل بن گئی ہے ٹنل کے بعد اس طرف ایک بہتر دور کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔ یونیورسٹیاں، میڈیکل کالجز وغیرہ بن گئے ہیں اور جگہ جگہ پر مختلف قسم کے انفراسٹرکچر پرکام جاری ہے۔انڈس ہائی وے تقریباً مکمل ہونے کو ہے جہاں پر کراچی اور بلوچستان سے تجارتی سامان کی خیبرپختونخوا ہ اور افغانستان کو رسد جاری ہے ۔ سی پیک کے ذریعے بھی اس علاقے کے لوگ اب آسانی سے سفر کرسکتے ہیں۔سی پیک کو ڈیرہ اسماعیل خان سے آگے گوادر تک بنانے کے منصوبے کو اگر عملی جامہ پہنایا گیا تو اس علاقے میں کاروبار اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں ۔
لیکن طویل عرصے تک نظر اندازی، مسلسل کوتاہی، ترقی میں سستی اور عدم توازن کی وجہ سے یہاں مسائل بھی بہت زیادہ ہیں ۔ یہاں پر سب سے بڑا مسئلہ فراہمی آب کا ہے۔ تمام تر پانی کا دارومدار مون سون کی بارشوں پر ہے۔ لیکن بد قسمتی سے پانی کی ذخیرہ کے لیئے بروقت اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں ۔ اس سال دریائے کرم اور دریائےٹوچی سے جتنا پانی گزرا اسے اگر ہم ذخیرہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو تقریباًکئی سالوں تک اس علاقے کی ضرورریات کے لیے کافی تھا۔ اگر یہ ہی حالات رہے تو زراعت تو دور کی بات، بہت جلد پینے کے پانی کا بحران بھی شدید ہو گا۔باقی ترقیاتی اقدامات کی اہمیت اپنی جگہ پانی کے ذخیرہ اندوزی، زیر زمین واٹر ٹیبل کو بہتر بنانے، پانی کی فراہمی اور سائنسی بنیادوں پر استعمال جیسے اقدامات کے لیئے جنگی بنیادو ں پر مربوط حکمت عملی کی اشدضرورت ہے۔ ابھی بھی لوگوں کا سب سے بڑا مطالبہ پانی کی فراہمی ہے اور ہمارے مختلف محکمے ہر طرف صرف زمین کھودنے میں لگے ہیں پانی نیچے جارہاہے اور ہم آنکھیں بند کرکے پانی کے پیچھے بس زمین کھودتے چلےجا رہے ہیں ۔
پانی اور پھر زراعت نہ ہونے کی وجہ سے روزمرہ طرز زندگی ، کاروباروغیرہ بھی بہت متاثر ہیں۔ اسی وجہ سے یہاں پر غربت کی شرح اور غربت کی شدت بھی بہت زیادہ ہے جس کو ہم کثیر الجہتی غربت پاورٹی بھی کہتے ہیں۔ امیراور غریب میں فرق بھی بہت ہے۔ صاحب ثروت اور تعلیم یافتہ لوگ پشاور اور اسلام آباد میں رہائش کو ترجیح دیتے ہیں۔
انتہا پسندی اور شدت پسندی کی لہر اگر چہ پورے پشتون بیلٹ میں موجود ہےلیکن یہاں پر یہ لہر زیادہ شدید اورتسلسل کےساتھ موجود ہے اور شدت پسندوں کو ہمدردی بھی مل رہی ہے۔ اگرچہ اس کے پیچھے بہت وجوہات ہیں لیکن اس درجے کی غربت، بےروزگاری کو بھی مورد الزام ٹھہراسکتے ہیں۔
یہاں پر اربن سنٹر بھی بہت کم ہیں اور سب سے زیادہ لوگ دیہاتوں میں رہ رہے ہیں مثلاً لکی مروت میں نوے فی صد لوگ دیہاتوں میں رہ رہے ہیں۔ دیہاتی علاقوں میں ایک طرف سروس ڈیلیورئ میں مشکلات ہیں اور دوسری طرف ہر دیہات میں انفراسٹرکچر تعمیرکرنا بھی نا ممکن ہے اورسب سے بڑھ کر پانی کی قلت کی وجہ سے بہت سےدیہات شدید کمی کا سامنا کر رہےہیں۔ اس لیئے صحیح منصوبہ بندی سے اربن سنٹر بنانا اورلوگوں کووہاں پربسانا بہت ضروری ہے۔ اربنائزیشن آسان بھی ہے کیونکہ یہاں پر زمین کی قیمتیں کم ہیں اورزمین ہموار بھی ہے لیکن اربنائزیشن کے منصوبوں کو بھی پانی کی فراہمی کیساتھ لنک کرنا بہت ضروری ہے جو کہ صحیح ہا یئڈ ر و لو جیکل سٹڈیز کے بغیر ناممکن ہے۔
جس طرح یہاں پر جغرافیہ، موسم اور زمینی حقائق الگ اسی طرح یہاں پرترقی کا ماڈل بھی الگ ہونا چاہیے۔ اب چونکہ ٹنل بھی بن گئی ہے سی پیک سے بھی منسلک ہے توپھریہاں پر ترقی کا عمل بھی جلداز جلد اورنئی ضروریات کے مطابق ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اب کوتل سر پاس والی رفتار نہیں چلے گی۔ اور اگر ٹنل پر بہت زیادہ رش کی وجہ سے اتنے سارےخیالات وسائل پاس نہیں ہو سکتے، تو پھر یہاں پر ایک اور ٹنل تعمیر کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔